امریکہ کے محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ جب تک افغانستان میں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال میں بہتری نہیں لائی جاتی، اس کا طالبان حکام کے ساتھ نرمی برتنے یا تعلقات کو معمول پر لانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ اپنے اس موقف پر سختی سے قائم ہے کہ جب تک تمام افغان باشندوں کو بنیادی حقوق نہیں دیے جاتے، ان سے تعلقات معمول پر لانے کی جانب کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔
محکمہ خارجہ کا یہ بیان اقوام متحدہ کی ایک نئی جائزہ رپورٹ جاری ہونے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں عالمی ادارے کی جانب سے افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کے ساتھ محتاط انداز میں تعلقات معمول پر لانے اور رابطے بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجی گئی جائزہ رپورٹ میں افغانستان کے لیے بین الاقومی امداد کا دائرہ وسیع کرنے کی سفارش کرتے ہوئے ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے مزید باقاعدہ امداد، انفرااسٹرکچر کے منصوبوں اور تیکنکی امور پر بات چیت اور تعاون فراہم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان سے افغانستان واپسی؛ مہاجرین کی حالت زار پر امدادی اداروں کی تشویشاگرچہ اسلام پسند گروپ کو چین اور روس سمیت متعدد علاقائی ممالک میں افغانستان کے سفارتی مشنز پر کنڑول حاصل ہو چکا ہے، لیکن اس کے باوجود طالبان کو اقوام متحدہ میں افغانستان کی نشست لینے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ وزیر خارجہ امیر خان متقی سمیت کئی طالبان لیڈروں کو اقوام متحدہ کی پابندیوں کی وجہ سے سفری پابندیوں کا سامنا ہے۔
سیاسی پابندیوں کے ساتھ ساتھ امریکہ، یورپی یونین اور دیگر کئی ممالک کی جانب سے طالبان کے اداروں پر عائد کردہ اقتصادی پابندیوں نے افغانستان کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے جس سے ملک میں انتہائی غربت کی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کی تنہائی کے نتائج اس ملک کے عوام کے لیے انتہائی سنگین ہیں جن میں سے اکثر کا دارومدار انسانی ہمدردی کی امداد پر ہے۔
SEE ALSO: رواں برس کے اختتام تک مزید 40 ہزار افغان باشندے کینیڈا میں پناہ حاصل کریں گےانٹرنیشنل کرائسز گروپ کے ایک سینئر کنسلٹنٹ، گریم اسمتھ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا،’’دنیا کے لیے افغانستان کی صورت حال کو معمول پر لانے کی خاطر ایک قابل عمل راستہ ڈھونڈنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس تنہائی کے نتائج افغان عوام کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ملک میں امن قائم رہتا ہے اور افغانستان دوبارہ عالمی برادری میں شامل ہو جاتا ہے تو اس سے ایئر لائنز، بینک، تاجر، سرمایہ کار اور ہر قسم کے عام افغان شہری فائدہ حاصل کریں گے۔
امریکہ اور طالبان کا معاہدہ
افغانستان سے محفوظ فوجی انخلا پر مذاکرات میں امریکہ نے طالبان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اگست 2020 تک طالبان کو اپنی پابندیوں اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے سے متعلق(Rewards for Justice programs) پروگراموں سے خارج کر دے گا۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت، جو عمومی طور پر دوحہ معاہدے کے نام سے موسوم ہے، امریکہ نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے بعد چھ ماہ کے اندر اندر طالبان پر اقوام متحدہ کی پابندیاں ہٹوانے کے لیے سفارتی کوششیں کرے گا۔
SEE ALSO: امریکہ، طالبان دوحہ مذاکرات، لڑکیوں کی تعلیم ایجنڈے میں سرِفہرستیہ مذاکرات ستمبر 2020 میں شروع ہوئے لیکن اگست 2021 میں افغان حکومت کے اچانک گر جانے کی وجہ سے ان میں خلل پڑ گیا۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے اور معاہدے پر دستخط کرنے والے سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دوحہ معاہدے پر مکمل طور عمل درآمد نہیں ہوا جس میں طالبان کی جانب سے مخصوص شرائط پوری کرنے کی صورت میں ان پر سے پابندیاں ہٹانا شامل تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے ان پہلوؤں کے تعطل میں پڑنے اور اس کے نتیجے میں طالبان پر پابندیوں کے تسلسل کی وجہ سے افغانستان بہت سے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ جس سے امریکہ سمیت عالمی برادری بھی متاثر ہو رہی ہے۔
امریکہ اور طالبان دونوں ہی دوحہ معاہدے کے مکمل اطلاق نہ ہونے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔
SEE ALSO: دوحہ معاہدے نے افغان طالبان کو مضبوط اور امریکہ کے اتحادیوں کو کمزور کیا ہے: امریکہطالبان کی جانب سے امریکہ اور اس کے اتحایوں کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں کو پناہ نہ دینے کے عزم کے باوجود، امریکہ کو سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد ایمن الظواہری، جولائی 2022 میں طالبان کے زیر کنٹرول کابل میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
دوحہ معاہدے کے حوالے سے وائس آف امریکہ کی جانب سے پوچھے گئے سوال کا امریکی محکمہ خارجہ نے کوئی جواب نہیں دیا، خاص طور پر طالبان کی جانب سے بین الافغان مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیے سے ہٹ کر اقتدار پر قابض ہونے سے متعلق سوال پر۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دوحہ معاہدے کے نامکمل اطلاق اور گزرے دو برسوں کے دوران جنم لینے والے دیگر مسائل کو حل کرنے کے لیے فریقوں کو ایک نئے معاہدے کی ضرورت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سابق امریکی سفیر خلیل زاد کا کہنا ہے کہ اس بارے میں بڑے پیمانے پر اتفاق موجود ہے کہ موجودہ بین الاقوامی رابطہ کاری مؤثر ثابت نہیں ہوئی اور اس سلسلے میں ایک نئے انداز کی ضرورت ہے، جس سے دہشت گردی سمیت طالبان کی جانب سے مثبت اقدامات کے بعد نامزد عالمی دہشت گردوں کی فہرست سے اخراج کے معاملات شامل ہوں۔
اگرچہ امریکی حکام داعش کے خلاف طالبان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن انہوں نے طالبان حکومت پر عشروں قبل دہشت گردی سے منسلک پابندیاں برقرار رکھی ہوئی ہیں۔
امریکی انٹیلی جینس کے سینئنر عہدے دار یہ کہہ چکے ہیں کہ اس خطے میں القاعدہ کی امریکہ کے خلاف فوری حملہ کرنے کی اہلیت بہت سمٹ گئی ہے۔