عسکریت پسند گروپ داعش کےسربراہ امیر محمد سعید الرحمٰٰن المولیٰ نے شام کے شمال مغربی شہر میں ایسے میں خود کو اور اپنے گھر والوں کو دھماکے سے اڑا دیا جب مہینوں پر محیط کوششوں کےبعد امریکی انٹیلی جنس کے اہلکار اس کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوئے تھے اور امریکی فورسز اس کے قریب پہنچ گئی تھیں۔
وائس آف امریکہ کے لیے جیف سیلڈن کی رپورٹ کے مطابق داعش کے سربراہ کی ہلاکت کا اعلان جمعرات کو امریکی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے ان اطلاعات کے گھنٹوں بعد سامنے آیا کہ شام کے صوبے ادلب کے شہر اطمہ (Atimah) میں انسداد دہشتگردی کی ایک بڑی امریکی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔یہ شہر ترکی کی سرحد سے زیادہ دور نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پر موجود شہادتوں میں بتایا گیا ہے کہ ہیلی کاپٹر اور امریکی فورسز نے گھنٹوں پر محیط آپریشن میں ایک تین منزلہ عمارت کو ہدف بنایا۔ بعض لوگوں نے سوشل میڈیا پر ہی اپنے بیان مٰیں بتایا ہے کہ امریکی فورسز نے شدید جھڑپ سے پہلے عام شہریوں کو اس عمارت سے نکلنے کی ہدایات جاری کیں اور اس مقصد کے لیے لاوڈ اسپیکروں کا استعمال کیا۔
امریکی کارروائی اور عام شہریوں کی ہلاکتیں:
لیکن امریکی عہدیداروں نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر اس آپریشن کی تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اموات اور تباہی کا سبب المولیٰ، جسے ابو ابراہیم الہاشمی القریشی اور حاجی عبداللہ کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے، اور اس کے ساتھیوں کی جانب سے خود کو دھماکے سے اڑانے کے نتیجے میں ہوئیں، کیونکہ انہوں نے زندہ گرفتاری نہ دینے کا تہیہ کر رکھا تھا۔
امریکی عہدے دار کے الفاظ میں، ’’ آخری بزدلانہ کاروائی اور انسانی زندگی کی بے توقیری کے اقدام کے طور پر حاجی عبداللہ نے دھماکہ کر دیا۔ یہ ایک بڑا دھماکہ تھا جس میں وہ خود اور دیگر کئی لوگ ہلاک ہو گئے جن میں اس کی بیوی اوربچے بھی شامل تھے۔‘‘ یہ بات ایک امریکی عہدیدار نے ٹیلی فون پر صحافیوں کو بتائی۔
عہدیدار کے مطابق عمارت کی تیسری منزل پر ہونے والا یہ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ کئی نعشیں اڑ کر قریبی علاقوں میں جا گریں۔
امریکی عہدیداروں کے مطابق داعش کے جنجگجو نے خود کو اپنی اہلیہ اور گھر والوں کے ساتھ دوسری منزل پر مورچہ بند کر لیا اور مارے جانے سے پہلے امریکی فورسز کے ساتھ لڑائی میں مصروف رہا۔
امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں تصدیق نہیں کر سکتے کہ اس آپریشن میں کتنے عام شہری ہلاک ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ داعش کے رہنما نے اس عمارت میں رہنے کا فیصلہ بظاہر اسی وجہ سے کیا تھا کہ یہاں عام شہری رہائش پذیر ہیں جن میں خاندان اور بچے شامل ہیں۔
جمعرات کو برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کے بارے میں سیرین آبزرویٹری نے بتایا کہ فوجی کارروائی میں کم از کم13 افراد ہلاک ہوئے، جن میں تین خواتین اور چار بچّے شامل ہیں۔ امریکی حکام نے اب تک شہریوں کی ہلاکت کے الزام کے بارے میں کوئی رد عمل نہیں دیا اور فوج نے اپنے مشن کی تعریف کی ہے۔
SEE ALSO: یمن: امریکی کارروائی میں القاعدہ کا سرغنہ، قاسم الرمی ہلاکادھر نیو یارک میں اقوام متحدہ کے ترجمان فرحان حق نے کہا ہے کہ ہم نے داعش پر حملے کے بارے میں صدر بائیڈن کا بیان دیکھا، جس میں داعش لیڈر ابو ابراہیم القریشی کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔ ہمیں اس حملے میں عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات پر تشویش ہے۔ داعش نے سفاکانہ جرائم کیے اور ہزاروں بے گناہ لوگوں کو ہلاک کیا ۔ ہمیں ان کے لواحقین کے ساتھ گہری ہمدردی ہے ۔ اقوام متحدہ داعش کے خلاف کی جانے والی ہر کوشش کے ساتھ ہے اور ان کے خلاف ہر کامیابی کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔
المولیٰ نے نومبر 2019 میں داعش کے امیر کا عہدہ سنبھالا تھا۔ ان کے پیش رو ابوبکرالبغدادی کو شمال مغربی شام میں ہی امریکی فورسز نے ایک کارروائی کے دوران ہلاک کیا تھا۔
المولیٰ عام طور پر لوگوں کے سامنے نہیں آتے تھے۔ پچھلے سال کی اقوام متحدہ کے انسداد دہشتگردی کی رپورٹ میں انہیں ایک لیڈر کہا گیا تھا جو اپنے حامیوں سے براہ راست کم مخاطب ہوتا تھا۔
بہر حال مبصرین کا خیال ہے کہ المولیٰ کی ہلاکت داعش کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے ، کیوںکہ انہوں نے انتہائی ثابت قدمی سے کئی بڑی ناکامیوں کا مقابلہ کیا اور اپنی تنظیم کو زندہ رکھنے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔