امریکی کانگریس میں طاقت کے نئے توازن کے بین الاقوامی اُمور پر نمایاں اثرات ہو سکتے ہیں اب جب کہ ایوان نمائندگان پر اپوزشن ری پبلکن پارٹی نے کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور سینٹ یا ایوان بالا میں حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے کئی ارکان وسط مدتی انتخابات میں اپنی نشستوں سے محروم ہو گئے ہیں۔
صدر باراک اوباما نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا عمل اگلے سال جولائی میں شروع کرنا چاہتے ہیں بشرطیکہ میدان جنگ کے حالات اس کی اجازت دیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کانگریس میں ری پبلکن پارٹی کی اکثریت سے افغان جنگ کی حمایت میں قلیل المدتی اضافے کا امکان ہے۔ اگر حکمران ڈیموکریٹس کی طرف سے آئندہ سال افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء پر زور دیا جاتا ہے تو اس سے کانگریس میں تصادم کی سی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔
ری پبلکن اراکین کے ایجنڈے میں دہشت گردی کے خلاف زیادہ سخت پالیسی اپنانا شامل ہے اور وہ میزائل کے ایک مفصل دفاعی نظام کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ کانگریس کے دونوں ایوانوں میں رپبلکن پارٹی کی کامیابیوں سے ناقدین کے اُن الزامات کو بھی تقویت مل سکتی ہے کہ صدر اوباما نے ایران اور اس کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے خلاف سخت موقف نہیں اپنایا ہے۔
ری پبلکن پارٹی کی جیت سے قدامت پسندوں کو صدر اوباما پر دباؤ بڑھانے کا بھی موقع مل سکتا ہے کہ وہ روس اور چین کے ساتھ اختلافات پر زیادہ تحکمانہ انداز اپنائیں۔ اس سے روس کے ساتھ اسلحہ کو کم کرنے کے اُس نئے معاہدہ کی توثیق کی کوششیں پیجیدگیوں کا شکار ہو سکتی ہیں جس کی مدت پچھلے سال ختم ہو گئی تھی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کی توثیق امریکی دفاعی نظام کو کمزور کرے گی۔ صدر اوباما اور سینٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان اس تاثر کو رد کرتے ہیں۔