|
ویب ڈیسک—امریکہ نے ایران پر روس کو میزائل فراہم کرنے پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ایران پر ان پابندیوں کا اعلان امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے منگل کو کیا۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ روس کی یوکرین میں غیر قانونی در اندازی کے دوران ایران کے میزائلوں کا استعمال روکنے کے لیے واشنگٹن نے یہ پابندی عائد کی ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کا کہنا ہے کہ ایران کی عدم استحکام کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان پابندیوں میں ایران اور روس میں انفرادی طور پر شخصیات اور اداروں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں ایرانی فضائی کمپنی ایران ایئر بھی شامل ہے۔
امریکہ کا الزام ہے کہ ایران کی ایئر لائن ہتھیاروں کی منتقلی میں ملوث ہے۔
پینٹاگان کے پریس سیکریٹری میجر جنرل پیٹ رائیڈر نے تصدیق کی ہے کہ ایران نے مختصر فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے والے ’فتح 360‘ میزائل روس کو منتقل کیے ہیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان میزائلوں کو آنے والے ہفتوں میں یوکرین کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پینٹاگان کے ترجمان کے بقول میزائلوں کی ترسیل سے قبل روس کے فوجی اہلکاروں کو ایران میں اس کے استعمال کی تربیت بھی دی گئی ہے۔
سیکریٹری میجر جنرل پیٹ رائیڈر نے کہا تھا کہ مختصر فاصلے تک ہدف کو نشانہ بننے والے میزائلوں کی ترسیل خدشات سے بھر پور پیش رفت ہے کیوں کہ ان میزائلوں کی فراہمی سے روس کے عسکری ہتھیاروں میں اضافہ ہوا ہے۔
واضح رہے کہ ایران کے ’فتح 360 میزائل‘ لگ بھگ 120 کلومیٹر کی حدود میں ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
برطانیہ کے شہر لندن میں صحافیوں سے گفتگو میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کا کہنا تھا کہ ایران اور روس کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون یورپ کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہے۔
SEE ALSO: روس کو ایرانی میزائلوں کی ترسیل کی پاسداران انقلاب کی جانب سے تردیدان کے بقول اس سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ ایران کی عدم استحکام کی سرگرمیاں کس طرح مشرقِ وسطیٰ سے آگے بڑھ رہی ہیں۔
اینٹنی بلنکن نے صحافیوں کو بتایا کہ روس بھی ایران کو ٹیکنالوجی منتقل کر رہا ہے۔ انہوں نے دونوں ممالک کے تعاون کو دو طرفہ قرار دیتے ہوئے کہ اس میں جوہری توانائی کے معاملات اور خلا سے متعلق کچھ معلومات بھی شامل ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوٹن ہتھیاروں کے حصول کے لیے ایران اور شمالی کوریا پر اب زیادہ سے زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔
اینٹنی بلنکن نے ان کے اقدامات کو اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ روس چین سے بھی مدد حاصل کر رہا ہے۔
روس نے بھی پیر کو تصدیق کی تھی کہ ایران کے ساتھ ’انتہائی حساس‘ شعبہ جات میں تعاون کر رہے ہیں۔ ماسکو نے بیلسٹک میزائلوں کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔
SEE ALSO: روس اور شمالی کوریا کے درمیان تعلقات کی مضبوطی اور 'وسیع تر تعاون' کا معاہدہروس کے صدر کی سرکاری رہائش گاہ کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف کا صحافیوں سے ٹیلی فونک گفتگو میں کہنا تھا کہ ایران روس کا ایک اہم اتحادی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ماسکو اور تہران تمام ممکنہ شعبوں میں تعاون اور مکالمے کو وسعت دے رہے ہیں ان میں انتہائی حساس شعبے بھی شامل ہیں۔
دو دن قبل ایران کی پاسدارانِ انقلاب کے سینئر کمانڈر نے ان خبروں کی تردید کی تھی کہ ایران روس کو میزائل منتقل کر رہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے اعلیٰ حکام یوکرین جائیں گے تو ممکن ہے کہ صدر زیلنسکی مغربی اتحادیوں پر زور دیں گے کہ یوکرین کو روس میں اندر تک اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے طویل فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔
قبل ازیں منگل کو بلنکن نے یوکرین جانے سے قبل میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ امریکہ کے جو بائیڈن نے روس کے اندر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ان میزائلوں کے استعمال کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جو واشنگٹن نے یوکرین کو فراہم کیے ہیں۔
دوسری جانب برطانیہ کے وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ جمعے کو واشنگٹن ڈی سی پہنچیں گے جہاں ان کی امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات ہو گی۔ اس دورے کے ایجنڈے میں سرِ فہرست یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال ہے۔