امریکہ اور ایران نے جمعے کے روز کہا ہے کہ وہ منگل سے ویانا میں بالواسطہ مذاکرات شروع کر رہے ہیں۔ یہ مذاکرات ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان دو ہزار پندرہ میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی تجدید نو کے لئے ہونے والے وسیع پیمانے کے مذاکرات کا حصہ ہونگے۔
ایران نے ویانا میں امریکی عہدیداروں سے کسی براہ راست بات چیت کے امکان کو مسترد کیا ہے، لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ ایرانی اور امریکی عہدیداروں کی آسٹریا کے دارالحکومت میں بیک وقت موجودگی ، جسے واشنگٹن نے ایک "صحت مندانہ پیش رفت" قرار دیا ہے، معاہدے کے تمام فریقوں کو اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ (اےپی) کے مطابق، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ اور ایران آئندہ ہفتے مصالحت کاروں کے ذریعے یعنی بالواسطہ مذاکرات کا آغاز کریں گے تا کہ دونوں ملک واپس جوہری سمجھوتے میں شامل ہو جائیں۔
اس اعلان سے پہلی مرتبہ دونوں ملکوں کے جوہری سمجھوتے میں واپسی کے امکان میں ایک بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ اس معاہدے کے تحت، ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنا تھا جس کے عوض، امریکی اور بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی پیدا کی جانی تھی۔
صدر جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہوئے کہا تھا کہ معاہدے میں واپسی ان کی ترجیح ہے۔ تاہم معاہدے میں واپسی کیلئے ایران چاہتا ہے کہ امریکہ پہلے پابندیوں میں نرمی کرے، جبکہ امریکہ کا مطالبہ ہے کہ پہلےایران یورینیم کی افزودگی کی حد کا احترا م کرے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں آئندہ منگل کے روز سے جاری ہونے والی بات چیت کو آگے بڑھنے مییں ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ابھی ابتدائی دن ہیں، اور کیونکہ یہ ایک مشکل بات چیت ہو گی اس لئے کسی جلد پیش رفت کی توقع نہیں کی جا رہی۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے تین سال قبل اس جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ علیحدگی کا اعلان کیا تھا تا کہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا جا سکے، اور اس سلسلے میں مزید سخت پابندیاں اور دیگر اقدامات اٹھائے گئے تھے۔
اس کے ردِ عمل میں، ایران نے یورینیم کی افزودگی میں اضافہ اور سینٹری فیوجز بنانےمیں تیزی پیدا کر دی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ایران نے زور دے کر کہا تھا کہ اس کا جوہری پروگرام عسکری مقاصد کیلئے نہیں بلکہ سویلین مقاصد کیلئے ہے ۔
اس تعطل سے نکلنے کیلئے، یورپی یونین نے مصالحت کار کے طور پر ایک ورچوئیل اجلاس کا اہتمام کیا، جس میں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور ایران کے عہدیداروں نے دونوں ملکوں کے درمیان ویانا میں بالواسطہ بات چیت پر اتفاق کیا۔
رائیٹرز کے مطابق، یورپی سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ ویانا میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کیلئے ایران اور امریکہ کےعہدیدار ویانا جائیں گے لیکن ان کے درمیان براہ راست بات چیت نہیں ہوگی۔
سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ ایران نے براہ راست بات چیت سے انکار کیا ہے، لیکن ویانا میں دونوں ملکوں کے عہدیداروں کی موجودگی، سمجھوتے میں واپسی کی جانب ایک قدم ہے۔
یورپی سفارتکاوں کا کہنا تھا کہ ایرانی اور امریکی عہدیدار ایک شہر میں تو ہونگے لیکن ایک کمرے میں نہیں ہونگے۔ ایک یورپی سفارتکار کا کہنا تھا کہ مصالحت کاری پر مبنی سفارتکاری کا طریقہ کار اپنایا جائے گا۔