چار نومبر 1979ء اتوار کا دن تھا، جب ایران کے اسلام پسند طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانے پر دھاوا بولا اور 444 دنوں تک 52 امریکی سفارت کاروں سمیت 98 افراد کو یرغمال بنائے رکھا۔ چالیس برس گزرنے کے باوجود اس بحران کی یادیں ذہنوں میں ابھی تک تازہ ہیں۔
بات دھرنے سے شروع ہوئی اور امریکیوں کو یرغمال بنانے کا باعث بنی۔ یہ قبضہ ایک سال، دو ماہ، دو ہفتے اور دو دنوں تک جاری رہا۔ یہ طالب علم امام خمینی کے اسلامی انقلاب کے حامی تھے۔
آخر کار، امریکی صدر جمی کارٹر نے ایرانی سفارت کاروں کو امریکہ سے ملک بدر کیا اور یرغمال امریکیوں کو چھڑانے کے لیے ناکام 'ریسکیو مشن' کیا۔ ہوتے ہوتے، امریکی یرغمالیوں کو 20 جنوری 1981ء کو اُس روز رہا کیا گیا جو اُن کے عہدہ صدارت کا آخری دن تھا۔
اسلامی انقلاب سے قبل، ایران امریکہ کا قریبی اتحادی تھا۔ لیکن اس بحران کے نتیجے میں دوستی دشمنی میں بدل گئی، جس کے شدید اثرات ابھی تک باقی ہیں۔
پھر تہران میں سابق امریکی سفارت خانے کی عمارت میں استعمال ہونے والی سرخ رنگ کی اینٹوں کی دیوار پر امریکہ مخالف نعرے اور نقش و نگار بنائے گئے۔
حسین کوہی احتجاج کرنے والے مظاہرین میں شامل تھے جنہوں نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بولا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ احتجاج اس بات پر تھا کہ امریکہ نے ایران کے داخلی امور میں مداخلت کی ہے، جو بات، بقول ان کے، ''اب تک جاری ہے''۔
اس وقت حسین کوہی کی عمر 76 برس ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ نیک گمان تھے کہ آگے چل کر باہمی تعلقات میں بہتری آئے گی۔ لیکن، بقول ان کے، ''قسمت ہی خراب ہے''۔
جاری تعزیرات کے بارے میں، انھوں نے بتایا کہ پابندیوں کے نتیجے میں ایران میں ضروری ادویات کی قلت ہو گئی ہے۔
بقول ان کے، ''اگر آج بھی ہم انھیں (امریکہ کو) اجازت دیں تو وہ ایران کو غارت کرنے کے لیے یہاں آئے گا، جیسا کہ وہ خطے کے دیگر ملکوں کے ساتھ کر رہا ہے۔ کوئی بھی غیر ملکی ہرگز ایران کا دوست نہیں۔ سب دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں''۔
اکتالیس برس کی زہرا تشکوری اسکول ٹیچر ہیں۔ اِس بات سے اتفاق کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ خوشی کی بات یہ ہے کہ یہاں امریکی موجودگی ختم ہو چکی ہے۔
زہرا نے کہا کہ ''اُن کی فلموں کو دیکھ لیں۔ وہ تشدد کو فروغ دیتے ہیں، جب کہ ان کے معاشرے میں کئی قسم کی برائیاں رائج ہیں۔ جس کسی بھی خطے میں قدم رکھا ہے، انھوں نے اسے تباہ کر کے ہی چھوڑا ہے۔ عراق، افغانستان اور شام کو دیکھ لیں''۔
اپنے پیش رو آیت اللہ روح اللہ خمینی کے طرح، ایران کے رہبر اعلیٰ، آیت اللہ علی خامنہ اِی بھی شدت پسندوں کو بارہا سراہا چکے ہیں، جنھوں نے سفارت خانے پر قبضہ کیا تھا۔ انہوں نے دھاوا بولنے والوں کے لیے کہا ہے کہ وہ ''ان کی سوچ قابل تقلید تھی''۔
لیکن، عام آدمی کی مختلف آوازیں بھی سننے میں آ رہی ہیں جو سفارت خانے پر قبضے کو اچھا نہیں سمجھتے۔ جیسا کہ 49 برس کے قاسم رباعی ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ''میں سمجھتا ہوں کہ امریکی سفارت خانے کو سرکاری ضابطوں کے مطابق بند کیا جاتا، لیکن قبضہ کرنے کے عمل کے ذریعے نہیں''۔
وہ کہتے ہیں کہ ''امریکہ اسلامی جمہوریہ کی کئی طرح سے مخالفت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کے سفارت کاروں کو ملک بدر کیا جاتا، لیکن پرامن اور قانونی طریقہ کار سے''۔
رضا قربانی کی عمر 19 برس ہے۔ وہ تہران کی آزاد یونیورسٹی میں انجنئرنگ کے طالب علم ہیں۔ بقول ان کے ''اس لامتناہی مخاصمت کا نتیجہ کیا نکلا؟ میں یہ نہیں کہتا کہ امریکی حکومت اچھی ہے، لیکن اتنی طویل مدت کے تلخ تعلقات کے نتیجے میں ایران کو بھی نقصان پہنچا ہے''۔
آج بھی ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی زوروں پر ہے، اور ایک دوسرے کے لیے سوچ مخاصمانہ ہے۔
اس بار، 2015ء میں ایران کے ساتھ ہونے والا جوہری سمجھوتہ وجہ دوری بنا ہے، جسے امریکہ نے مسترد کر دیا ہے، اور جس کے بعد امریکی تعزیرات کو پھر سے عائد کیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایرانی معیشت بری طرح اثر انداز ہوئی ہے۔