امریکہ اور یورپی یونین کا خیال ہے کہ ایران کے یورینیم کو افژودہ کرنے کے پروگرام کا اصل مقصد نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ افژودہ شدہ یورینیم کو صرف پُر امن مقاصد کے لیے، جیسے بجلی پیدا کرنے کےلیے، استعمال کرنا چاہتا ہے۔
ایران اور چھہ عالمی طاقتوں، امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے درمیان مذاکرات برسوں سے چل رہے ہیں۔ تازہ ترین دو روزہ میٹنگ گذشتہ مہینے بغداد میں ہوئی تھی جس میں بہت کم پیش رفت ہوئی۔ مذاکرات کرنے والوں نے جون کے وسط میں ماسکو میں ملنے پر اتفاق کیا۔
عام خیال یہ ہے کہ ایران میں روس کے جو اقتصادی مفادات ہیں، ان کی وجہ سے ماسکو ایران کا زبردست حامی بن گیا ہے۔
لیکن نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے رابرٹ لیگوالڈ سمیت بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران، روس نے ایران کے بارے میں اپنا موقف سخت کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ سلسلہ 2009ء میں شروع ہوا تھا۔ روس کے ساتھ تعلقات نئی نہج پر قائم کرنے کے لیے اوباما انتظامیہ نے جو معیار مقرر کیے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ کیا روسی اقوامِ متحدہ میں ایران پر پابندیوں کے معاملے میں ساتھ دیں گے۔ 2009ء کے بقیہ حصے میں، اور 2010ء کے موسمِ بہار میں، روس کی پالیسی بتدریج تبدیل ہوتی گئی۔ اوباما انتظامیہ کے عہدے داروں نے مجھے بتایا ہے کہ ایران کے بارے میں امریکہ اور روس کا موقف، اور ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں، دونوں ملکوں کی سوچ میں اب بڑی یکسانیت ہے۔‘‘
لیگوالڈ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایران کے معاملے میں واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان اب کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ’’فوجی طاقت کے استعمال کے بارے میں روسی بہت نروس ہیں، چاہے یہ کام اسرائیل کرے، یا کسی اور طریقے سے امریکہ کرے، یا امریکہ اور اسرائیل دونوں مل کر کریں۔ سفارتی سطح پر بھی روسی زیادہ سخت کوشش کے حامی ہیں، بجائے اس کے کہ مزید سخت پابندیاں عائد کی جائیں۔‘‘
پرنسٹن یونیورسٹی اور نیو یارک یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر اسٹیفن کوہن کہتے ہیں کہ روس نے صرف یہ نہیں کیا کہ ایران کے خلاف زیادہ سخت پابندیوں کے حق میں ووٹ دیا ہو۔ انھوں نے کہا کہ ’’بلکہ روس نے ایرانی حکومت کے ساتھ وہ سودا بھی منسوخ کر دیا جس کے تحت اسے ایران کو طیارہ شکن میزائل فراہم کرنے تھے۔ یہ اس قسم کے طیارہ شکن میزائل تھے جن کی اسے اسرائیل یا امریکہ کی طرف سے حملے کی صورت میں ضرورت پڑتی۔ یہ حملہ ، کم از کم تھیوری میں ان ملکوں کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ ماسکو کی طر ف سے یہ انتہائی اہم اقدام تھا۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ ایک شعبہ جس میں ماسکو سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں، وہ میزائل شکن دفاعی نظام ہے۔ یہ ایسا تصور ہے جس کا تعلق ایران سے ہے۔
ایران کی طرف سے ممکنہ نیوکلیئر حملے کا جواب دینے کے لیے، اوباما انتظامیہ نے جو منصوبہ تیار کیا ہے اس کے تحت سمندر میں جنگی جہازوں پر میزائل شکن نظام نصب ہوں گے۔ اس نظام کے ایڈوانسڈ ورژن زمین پر بھی نصب کیے جائیں گے۔ ان میں سے کچھ سابق وارسا پیکٹ کے ملکوں میں نصب ہوں گے۔
روس نے یورپ میں امریکہ کی طرف سے بلسٹک میزائل ڈیفینس سسٹم نصب کرنے کے منصوبوں کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ ماسکو یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اس قسم کے نظام کا مقصد ایران جیسے ملکوں کی طرف سے میزائلوں کے حملوں سے دفاع ہے۔ روسی عہدے داروں کی نظر میں اس نظام کا اصل ہدف ماسکو ہے۔ امریکہ نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے رابرٹ لیگوالڈ کہتے ہیں کہ ماسکو کو اصل اعتراض اس منصوبے کے چوتھے مرحلے پر ہے جسے 2020ء میں مکمل کیا جانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’چوتھے مرحلے کے ساتھ، جس پر ہم تیسرے مرحلے میں کام شروع کر دیں گے، مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک بین البر اعظمی بلسٹک میزائل سسٹم ہے جس کا مقصد پورے بر اعظم کا دفاع ہے، جب کہ کم فاصلے تک مار کرنے والے سسٹم یہ کام انجام نہیں دے سکتے۔ ان بین البر اعظمی میزائلوں سے روس کے نیوکلیئر دفاعی نظام کے لیے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔‘‘
شکاگو میں نیٹو کی حالیہ سربراہ کانفرنس میں، لیڈروں نے میزائل کی دفاعی ڈھال کے منصوبے سے اپنی وابستگی کا اعادہ کیا۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا لیکن وہ آئے نہیں۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ان کی عدم شرکت کا مقصد یہ تھا کہ میزائل کی دفاعی ڈھال کے تصور کے بارے میں اپنی مخالفت پر زور دیں۔