امریکی فوج نے ایران کی جانب سے 15 گھنٹے تک 10 امریکی ملاحوں کو حراست میں رکھنے کے معاملے پر پہلی سرکاری تفصیل جاری کی ہے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ گذشتہ ہفتے ایک امریکی کشتی ایرانی بحری حدود میں آگئی تھی۔
امریکی سنٹرل کمانڈ کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بحریہ کے دو جہاز تیل بھرنے کے لیے بین الاقوامی بحری حدود میں امریکی ساحلی محافظوں کی کشتی کے قریب لنگرانداز ہونا تھے۔ لیکن، مقررہ راستے سے جدا ہوگئے۔
بیان کے مطابق، کمان کی چھان بین سے یہ طے ہوجائے گا آیا وہ متعین راستے سے کیسے دور ہوئے، اور ’آر سی بیز‘ (امریکی بحریہ کی کشتیاں) کیسے بین الاقوامی پانیون میں داخل ہوئیں، جو جزیرہٴ فارسی کے قرب و جوار میں واقع ہے‘۔
یہ ملاح خلیج فارس کے راستےکویت سے بحرین کے سفر پر تھے، جب منگل کو امریکی کنٹرول کا اُن سے رابطہ ٹوٹ گیا۔
سینٹکام نے کہا ہے کہ دونوں کشتیاں رکی ہوئی تھیں، جِن میں سے ایک کشتی کے ڈیزل انجن میں فنی خرابی کے آثار بتائے گئے تھے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ مقام ایرانی علاقائی بحری حدود میں واقع ہے، حالانکہ یہ واضح نہیں آیا عملے کو اس مقام کے بارے میں آگہی تھی۔ جب ’آر سی بیز‘ کو روکا گیا اور عملہ تکنیکی خرابی کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہا تھا، ایرانی کشتیاں جہازوں کی جانب نمودار ہوئیں‘۔
بعد میں، ملاحوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
سینٹکام کے الفاظ میں، ’بندوق کے زور پر ’آر سی بیز‘ کو جزیرہٴ فارسی کی ایک چھوٹی سی بندرگاہ کی تنصیب کی جانب لے جایا گیا جہاں امریکی ملاح اترے اور اُنھیں تقریباً 15 گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا۔ اب تک یہ نہیں معلوم آیا ملاحوں کو کوئی جسمانی تکلیف پہنچائی گئی‘۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے، جنھوں نے اِس واقع کے بارے میں کئی بار اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ بات چیت کی، بتایا ہے کہ ملاحوں کی فوری رہائی سفارت کاری کی کامیابی کی کہانی ہے۔