جنداللہ دہشت گردوں کی امریکی فہرست میں شامل کرنے کی وجوہات

جنداللہ دہشت گردوں کی امریکی فہرست میں شامل کرنے کی وجوہات

امریکہ نے ایران کی حکومت کے مخالف ایک مسلح ایرانی گروپ ، جنداللہ کو دہشت گرد وں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے ۔ ایران ایک عرصے سے امریکہ پر جنداللہ کی حمایت کرنے کا الزام عائد کر تا رہا ہے ۔

امریکہ نے ایران کی حکومت کے مخالف ایک مسلح ایرانی گروپ ، جنداللہ کو دہشت گرد وں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے ۔ ایران ایک عرصے سے امریکہ پر جنداللہ کی حمایت کرنے کا الزام عائد کر تا رہا ہے ۔

امریکہ نے ایران کی حکومت کے مخالف ایک مسلح ایرانی گروپ ، جنداللہ کو دہشت گرد وں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے ۔ ایران ایک عرصے سے امریکہ پر جنداللہ کی حمایت کرنے کا الزام عائد کر تا رہا ہے ۔ اس مرحلے پر امریکہ کے جنداللہ کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کی وجوہات کے متعلق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ کچھ عرصے سے جند اللہ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے پر غور کرتی رہی ہے، لیکن جون 2009 کے متنازع صدارتی انتخاب اور اس کے بعد ایرانی حکومت کی طرف سے حزبِ اختلاف کے خلاف کارروائیوں کے بعد انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ ایران کو کوئی ایسا اشارہ نہیں دے گی جس سے مصالحت کی خواہش کا اظہار ہوتا ہو۔

جنداللہ کی تنظیم 2003ء میں وجود میں آئی اور اس کے بعد سے ایرانی حکومت کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔ اس سنی گروپ کا دعویٰ ہے کہ وہ ایران کے بلوچ نسل کے لوگوں کے حقوق کے لیے جنگ کر رہا ہے۔ اس نے بموں کے کئی دھماکے کیے ہیں۔ تازہ ترین حملہ زاہدان کی ایک مسجد میں ہوا جس میں ستائیس افراد ہلاک ہوئے ۔ ان حملوں میں عموماً ایران کی پاسدارانِ انقلاب کور کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔

ایران نے امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں، خفیہ طور پر جند اللہ کی پشت پناہی کرتا رہا ہے ۔ امریکہ نے اس گروپ کی مدد کرنے کے الزام سے انکار کیا ہے۔

کانگریشنل ریسرچ سروس کے تجزیہ کار Ken Katzman نے اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اوباما انتظامیہ کے اس اقدام کا تعلق ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوشش سے ہو سکتا ہے ۔ ”ہو سکتا ہے کہ یہ کہنے کی کوشش کی جا رہی ہو کہ ہم نے نئی پابندیاں لگا دی ہیں اور دوسری حکومتوں نے بھی بالکل ایسا ہی کیا ہے ، اور اب ہم یہ دکھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہمارا مقصد کسی ملک کو سزا دینے کا نہیں ہے ، نہ ہم کسی ملک کی حکومت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم تو مذاکرات چاہتے ہیں اگر ہمارا کوئی ایسا رابطہ ہو جائے جو جوہری مسئلے پر بات چیت کے لیے سب کو قابلِ قبول ہو۔“

جوہری مسئلے پر مذاکرات کے بارے میں ایران کی طرف سے ملے جلے پیغام مل رہے ہیں۔P5+1 ملکوں کا گروپ، یعنی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی ، آپس میں مشورے کر رہے ہیں کہ ایران سے کیسے نمٹا جائے۔ لیکن امریکی عہدیدار کہتے ہیں کہ جند اللہ کو دہشت گرد قرار دینے کے معاملے کا جوہری مسئلے سے کوئی تعلق نہیں۔ تا ہم پرائیویٹ انٹیلی جنس فرم اسٹرٹ فار کی تجزیہ کار ریوا بھَلا کہتی ہیں کہ اس اقدام کی ایک اور وجہ ہے ۔”لیکن میں سمجھتی ہوں کہ امریکہ اور ایران کے درمیان اصل مسئلہ عراق کا ہے ۔ یہ پتہ چلانا کہ کیا عراق میں ایران کے اثر و رسوخ کی سطح کے بارے میں کوئی مفاہمت ہو سکتی ہے ، اور ا س بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ علاقے میں امریکہ کے قدم مضبوطی سے جمے رہیں تا کہ ایرانیوں کو دور رکھا جا سکے، اور خلیج کے اتحادی ملکوں، اور ترکی کے ساتھ کوئی ایسا انتظام ہو سکے کہ ایران کی طاقت کو قدرے محدود کیا جا سکے۔“

عراق میں مارچ کے انتخابات کے بعد سے جس میں کسی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں مل سکی تھی ، سیاسی تعطل جاری ہے۔ قومی اتحاد کی ایسی کوئی حکومت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں شیعہ، سنی، اور کرد پارٹیاں شامل ہوں اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایران اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ نتیجہ ایسا ہو جس میں اس کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہو۔

عراق میں امریکہ کے ڈپٹی کمانڈر فار آپریشنز ، لیفٹیننٹ جنرل رابرٹ کون نے کہا کہ ایران نے عراق پر مثبت اور منفی دونوں قسم کے اثرات ڈالے ہیں ، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب اس کا اثر و رسوخ کم ہو گیا ہے ۔”میرے خیال میں گذشتہ چند مہینوں میں، حکومت کی تشکیل کی مدت کے دوران، ایران کا اثر و رسوخ کچھ کم ہوا ہے، اور آ ج کل حکومت کی تشکیل کے اس مرحلے میں، اور ملک کی نازک سیاسی حالت میں، شاید ایسا ہونا مناسب ہے۔“

ریوا بھلاکہتی ہیں کہ تہران میں آج کل سرکاری حلقوں میں بے چینی پائی جاتی ہے کہ امریکی کانگریس کے انتخابات میں ریپبلیکن پارٹی کی جیت کے بعد، صدر اوباما پر، خاص طورسے جوہری مسئلے میں، ایران کے ساتھ اور زیادہ سخت موقف اختیار کرنے کے لیے، اور زیادہ دباؤ پڑے گا۔ ان کے خیال میں، انتخابات کے نتیجے میں، ایران کا سوال بہت زیادہ اہمیت اختیار کر لے گا۔

لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کانگریس کے بعض حلقوں کی طرف سے ایران کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ کے با وجود، دفاع اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں امریکی صدر کے اختیارات کافی وسیع ہوتے ہیں۔