صدر اوباما نے کہا ہے کہ اتحادی خلیجی ریاستوں کی سلامتی کے لیے امریکہ کا عزم مضبوط ہے اور اگر انہیں خطرہ ہوا تو وہ فوجی طاقت بھی استعمال کرے گا۔
اوباما نے واشنگٹن کے شمال میں واقع کیمپ ڈیوڈ میں چھ ممالک پر مشتمل خلیج تعاون کونسل کے سربراہوں اور سینیئر وزراء کے اجلاس کی میزبانی کی۔
ان میں سعودی عرب کے ولی عہد اور نائب ولی عہد، کویت اور قطر کے امیر اور بحرین، اومان اور متحدہ عرب امارات سے اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی۔
صدر نے ملاقات کے بعد کہا کہ انہوں نے مذاکرات کے دوران ’’بہت وضاحت‘‘ سے بتایا کہ خلیجی ممالک پر ’’بیرونی حملے کی صورت میں‘‘ امریکہ کا کیا مؤقف ہو گا اور وہ ’’دستیاب اجتماعی وسائل کے استعمال پر غور کرے گا جس میں فوجی طاقت کا ممکنہ استعمال بھی شامل ہو گا۔‘‘
اوباما نے کہا کہ خلیج کا علاقہ ’’غیر معمولی تبدیلیوں‘‘ اور ’’بڑے چیلنجوں‘‘ سے گزر رہا ہے۔
خلیجی ممالک کے رہنما اس اجلاس میں امریکی صدر کی جانب سے اس یقین دہانی کی امید لے کر شریک ہوئے ہیں کہ امریکہ مکمل طور پر ان کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔
انہیں اس اجلاس میں ایک باضابطہ دفاعی معاہدہ تو نہیں حاصل ہو سکا جیسا کہ چند خلیجی ممالک چاہتے تھے، مگر ایک ایسے وقت جب وہ علاقے میں ایران کے کردار اور شدت پسند گروہوں کی نمو سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں انہیں امریکہ کی جانب سے ایک واضح پیغام ملا ہے جو وہ چاہتے تھے۔
صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ خلیجی ریاستوں کو تمام خطرات سے نمٹنے میں مدد دینے کے لیے اپنی کوششیں بڑھائے گا۔ اس میں مزید جنگی مشقیں، میزائل دفاعی نظام بنانے میں تعاون اور فوری ردِ عمل کی صلاحیت بڑھانا شامل ہو گا۔
خلیجی ریاستیں اس بات پر تشویش میں مبتلا رہی ہیں کہ ان کے سب سے بڑے حریف ایران کے دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد مغرب کی جانب سے عائد پابندیاں ختم ہونے سے ایران ایک مزید جارح علاقائی طاقت بن کر ابھرے گا۔
صدر اوباما نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ اب خلیجی رہنما ایران کے ساتھ ایک جامع اور قابلِ تصدیق معاہدے کی وسیع حمایت کے لیے تیار ہیں، جس سے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جا سکے گا، اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ ان کے مفاد میں بھی ہے۔
سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ عدل الجبیر نے جمعرات کو دیر گئے کہا کہ ان کی حکومت انتظار کرے گی اور کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کا جائزہ لے گی۔
اوباما اور خلیج تعاون کونسل کے ممالک نے شام میں اعتدال پسند حزب مخالف کو مضبوط کرنے، یمن میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی حمایت کرنے، اور اسرائیل کے دو ریاستی حل پر کام کرنے کا بھی عہد کیا ہے، اگرچہ صدر نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن معاہدہ ابھی دور نظر آتا ہے۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر بین روڈز نے کہا کہ بظاہر خلیج تعاون کونسل میں شامل ممالک کو ایران کے مذاکرات کے خدوخال کی تفصیلات کی سمجھ بوجھ ہے، جس میں مداخلانہ معائنے اور شفافیت کے اقدامات شامل ہوں گے تاکہ ایران معاہدے کے تحت حدود کی پابندی کرے اور جوہری ہتھیار بنانے سے باز رہے۔
جب ان سے خلیجی ممالک کے ساتھ پابند کرنے والے معاہدوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا امریکہ اپنے خلیجی حلیفوں کے ساتھ باہمی دفاعی معاہدے شروع نہیں کر رہا کیونکہ ایسے معاہدے ’’بہت پیچیدہ معاملہ‘‘ ہوتے ہیں۔
اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ خلیجی حلیفوں کو غیر نیٹو اتحادی کا درجہ دینے پر غور کے لیے تیار ہے جس سے یہ ممالک چند اقسام کی فوجی امداد کے لیے اہل ہو جائیں گے۔
جب ان سے علاقے میں ممکنہ جوہری دوڑ کے بارےمیں پوچھا گیا تو بین روڈز نے کہا کہ وہاں موجود کسی خلیجی ملک نے ایسا اشارہ نہیں دیا کہ وہ جوہری دوڑ میں شامل ہو گا جس سے کوئی خدشہ پیدا ہو۔