امریکہ اور جنوبی کوریا کے خصوصی ایلچیوں نے منگل کے روز ٹوکیو میں اپنے جاپانی ہم منصب سے شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام پر بات چیت کے لیے ملاقات کی۔
شمالی کوریا کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے سنگ کم اور امن و سلامتی کے امور کے لیے جنوبی کوریا کے خصوصی نمائندے نوہ کیو ڈک، جاپان کے ڈائریکٹر جنرل برائے ایشیائی اور سمندری امور، تا کے ہیرو فوناکوشی نے اس ملاقات میں شمالی کوریا کی ہتھیاروں سے متعلق تازہ ترین پیش رفت پر بات چیت کی۔
شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ قوم نے ہفتہ اور اتوار کو "نئے تیار کردہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے کروز میزائل" کا تجربہ کیا۔
کروز میزائل نسبتاً کم بلندی پر اڑتے ہیں اور پرواز کے دوران اس کی رہنمائی کی جا سکتی ہے۔ کروز میزائل، ان ریڈارز کی نظر میں نہیں آتے جو میزائل ڈیفنس سسٹم کو دشمن کا میزائل مار گرانے کے لیے متحرک کرتا ہے۔
SEE ALSO: شمالی کوریا کا دورمارکروزمیزائل کاتازہ تجربہتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کا میزائل بظاہر امریکہ کے ٹوما ہاک سے ملتا جلتا دکھائی دیتا ہے۔ جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والا ٹام ہاک کروز میزائل جو تقریباً 1600 کلومیٹر کے فاصلے پر اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
شمالی کوریا نے اس جانب اشارہ دیا ہے کہ اس کا میزائل ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کا حامل ہے جب کہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس پرجوہری ہتھیار نصب ہو سکتا ہے یا نہیں، کیونکہ ابھی تک شمالی کوریا کے پاس ایٹمی وار ہیڈ کافی چھوٹے سائز کے ہیں۔
تاہم یہ میزائل شمالی کوریا کے ہتھیاروں میں ایک اور مہلک عنصر میں اضافے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ شمالی کوریا نے 2019 کے بعد سے اپنے ہتھیاروں کے پروگرام کو نمایاں طور پر توسیع دی ہے، اور اس نے بڑے ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کیے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
تینوں سفارت کاروں نے اپنی بات چیت سے قبل صحافیوں سے بھی گفتگو کی۔ کم نے کہا کہ شمالی کوریا میں ہونے والی حالیہ سرگرمیاں جاپان، شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان قریبی رابطوں اور تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔
نوہ نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ایک اچھی چیز یہ ہے کہ تینوں ملکوں کے نمائندے "جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے بارے میں ہماری مشترکہ تفہیم کی بنیاد پر شمالی کوریا سے نمٹنے کے بارے میں واضح بحث کر سکتے ہیں''۔
حالیہ تبصروں میں، کم یہ اشارہ کر چکے ہیں کہ واشنگٹن شمالی کوریا کے معاملات سے نمٹنے کے لیے سفارتکاری سے کام لے سکتا ہے۔
پیانگ یانگ نے اب تک ان پیشکشوں کو مسترد کرتے ہوئے اور خود پر عائد پابندیوں اور جنوبی کوریا کے ساتھ امریکہ کی مشترکہ فوجی مشقوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہتا رہا ہے کہ امریکہ میں کچھ بھی نہیں بدلا۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس، رائٹرز اور ایجنسی فرانس پریس سے لی گئی ہے۔)