امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان سیکیورٹی اور اقتصادی تعلقات کےفروغ کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ کیمپ ڈیوڈ میں سہ فریقی سربراہ کانفرنس میں طے پانے والے معاہدوں کو'کیمپ ڈیوڈ پرنسپلز' کا نام دیا گیا۔
کیمپ ڈیوڈ سربراہ کانفرنس کے بعد تینوں ممالک کے سربراہوں نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا،"ہمارے سہ فریقی سیکیورٹی تعاون کا مقصد خطے میں امن اور استحکام میں اضافہ ہے اور یہ مقصد ہمیشہ رہے گا۔"
صدر بائیڈن نے کہا کہ خطرات سے نمٹنے کے بارے میں صلاح مشورے کے لیےتینوں ملکوں کے درمیان ایک ہاٹ لائن قائم کی جائے گی۔
کانفرنس کے بعد صدر بائیڈن نے جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول اور جاپان کے وزیرِ اعظم فومیو کشیدا کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔
صدر جو بائیڈن نے جمعے کے روز کیمپ ڈیوڈ میں جاپان، امریکہ اور جنوبی کوریا کی سہ فریقی سربراہ کانفرنس کا افتتاح کیا۔ اس تاریخی کانفرنس میں توجہ اقتصادی اور سیکیورٹی کے تعلقات مضبوط بنانے پر مرکوز کی گئی۔
کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے اسےتینوں ملکوں کے درمیان پہلی انفرادی کانفرنس قرار دیا۔
یہ کانفرنس ایسے میں ہو ئی ہے جب بحر الکاہل کے علاقے میں شمالی کوریا سے مستقل جوہری خطرے اور چین کے اشتعال انگیز اقدامات پر تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔
صدر نے کہا، " ہمارے ممالک مضبوط ہیں اور ہم ساتھ ہوں تو دنیا زیادہ محفوظ ہوگی۔"
جاپان اور جنوبی کوریا کے رہنماؤں کا خیر مقدم کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا،
"میں آپ کی سیاسی جرأت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو آپ دونوں کوآج یہاں لے آئی۔"
اس موقع پر یون نے کہا، "آج کے دن کو ایک ایسے تاریخی دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب ہم نے سہ فریقی شراکت داری کی ایک مضبوط بنیاد فراہم کی اورعزائم کا اظہار کیا۔"
SEE ALSO: شمالی کوریا کے میزائل تجربات کا ردِ عمل؛ جنوبی کوریا، جاپان اور امریکہ کی مشترکہ فوجی مشقیں
جاپانی وزیرِ اعظم کشیدا نے کہا، "یہ حقیقت کہ ہم تینوں لیڈر اس انداز میں ایک ساتھ جمع ہوئے ہیں، میرے خیال میں یہ معنے رکھتی ہے کہ ہم آج ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں اور بین الاقوامی برادری کی تاریخ میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔"
امریکہ جاپان اور جنوبی کوریا نے سیکیورٹی کے ایک نئے عہد کے مطابق یہ عزم کیا ہے کہ بحر الکاہل میں کسی خطرے اور سیکیورٹی کے کسی بحران کی صورت میں تینوں ممالک ایک دوسرے سے صلاح مشورہ کریں گے۔
یہ معاہدہ اس ایک روزہ کانفرنس میں زیرِ بحث متعدد دیگر مشترکہ کوششوں میں سے ایک کے بارے میں ہے۔
صدر بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے کہا ہے کہ یہ بڑی بات ہے۔
انہوں نے کہا۔" یہ کہنا کافی ہوگا کہ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ تاریخی موقع ہے اور اس سے ہند و بحرالکاہل میں زیادہ امن اور خوشحالی کے حالات پیدا ہوں گے اور امریکہ مضبوط اور محفوظ تر ہو گا۔"
یہ سہ فریقی سربراہ کانفرنس آغاز سے قبل ہی چینی حکومت کی نکتہ چینی کی زد میں آئی جب کہا گیا،" بین الاقوامی برادری خود فیصلہ کر سکتی ہے کہ کون تضاد پیدا کر رہا ہے اور کشیدگیوں میں اضافہ کر رہا ہے۔"
جمعے کے روز چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ ون بن نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا، " ایشیا۔ بحر الکاہل کے علاقے میں متعدد انفرادی اور مخصوص گروپ اور گروہ بنانے اور بلاک بنا کر کشیدگی پیدا کرنے کی کوششیں مقبولیت نہیں رکھتیں اور ان سے خطے کے ممالک میں یقینی طور پر چوکسی اور مخالفت پیدا ہوگی۔"
سلیون نے چینی تشویش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسے بحرلکاہل کا نیٹو نہیں سمجھا جانا چاہیئے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر نےکہا،"یہ شراکت داری کسی کے خلاف نہیں ہے، اس کی ایک اہمیت ہے۔یہ ایک ایسے ہند و بحر الکاہل کا تصور ہے جو آزاد، کھلے پن کا حامل، محفوظ اور خوشحال ہو۔"
کیمپ ڈیوڈ میں بائیڈن کی یہ پہلی سربراہ کانفرنس تھی۔ اس کا مقصد امریکہ کے دو قریبی اتحادی ممالک کے ساتھ سیکیورٹی اور اقتصادی میدان میں تعاون مزید مضبوط کرنا تھا۔
جنوبی کوریا اور جاپان، دوسری عالمی جنگ کی تاریخ اور جزیرہ نما کوریا پر 1910 سے 1945 تک جاپان کی نو آبادیاتی حکمرانی کے باعث ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں۔ تاہم شمالی کوریا اور چین سے درپیش سیکیورٹی کے مشترکہ چیلنجز کے باعث کشیدا اور یون کی قیادت میں دونوں ملکوں میں مصالحت کا آغاز ہوا ہے۔
( اس خبر میں مواد اے پی سے لیا گیا)