امریکہ کے محکمۂ انصاف نے وفاقی حکومت کی جانب سے سزائے موت پر 17 برس بعد دوبارہ عمل درآمد شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ محکمۂ انصاف نے پیر کو چار مجرمان کی سزائے موت کی تاریخیں بھی جاری کر دی ہیں۔
امریکی محکمۂ انصاف کا کہنا ہے ملک میں وفاق کی تحویل میں موجود قیدیوں کی سزائے موت پر عمل درآمد 13 جولائی سے شروع ہو گا۔ وفاقی کی تحویل میں قیدیوں کو سزائے موت دینے کا سلسلہ 2003 سے معطل تھا۔
امریکہ کے اٹارنی جنرل ولیم بر نے ایک سال قبل اعلان کیا تھا کہ وہ وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آنے والے جرائم میں ملوث افراد کے لیے سزائے موت بحال کرنا چاہتے ہیں۔
اس اعلان کے بعد پانچ مجرمان کی سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے دسمبر 2019 اور رواں سال جنوری کی تاریخیں دی گئی تھیں۔ ان مجرمان کو امریکی ریاست انڈیانا میں سزائے موت دی جانی تھی۔
لیکن سزا پر عمل درآمد سے قبل امریکہ کی سپریم کورٹ نے سزائے موت پر حکمِ امتناع واپس لینے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ عدالت اس معاملے پر نظر ثانی کرے گی۔
رواں سال اپریل میں واشنگٹن کی اپیل کورٹ نے زہر کے انجیکشن کے ذریعے وفاقی مجرمان کو سزائے موت کی اجازت دے دی تھی جس کے بعد اٹارنی جنرل ولیم بر نے حکم دیا تھا کہ چار مجرمان کی سزائے موت دوبارہ شیڈول کی جائے۔
ولیم بر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ظالمانہ جرائم کا نشانہ بننے والے متاثرین کا ہم پر یہ قرض ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اٹارنی جنرل کے حکم پر محکمۂ جیل نے چاروں مجرمان کی سزائے موت 13 جولائی سے 28 اگست کے درمیان شیڈول کر دی ہیں۔
جن مجرمان کو سزائے موت دی جائے گی، ان میں ایک سفید فام نسل پرست ڈینئل لوئس لی بھی ہے۔ ڈینئل کو 1996 میں سزائے موت دی گئی تھی۔ ان پر ایک ہی خاندان کے تین افراد کو قتل کرنے کا الزام ثابت ہوا تھا جن میں ایک آٹھ سالہ بچی بھی شامل تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے حامی ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کو بھی سزائے موت دی جانی چاہیے۔
دوسری جانب ایک سروے کے مطابق امریکہ میں سزائے موت کے حامیوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔ 1990 میں 80 فی صد لوگ سزائے موت کے حامی تھے جب کہ اب 54 فی صد لوگ اس کی حمایت کرتے ہیں۔
امریکہ میں سزائے موت پر پہلے بھی پابندی لگتی رہی ہے۔ سال 1988 میں وفاق کی جانب سے سزائے موت دوبارہ بحال کی گئی تھی لیکن اس کے بعد سے اب تک صرف تین افراد کو ہی سزائے موت دی گئی ہے۔
امریکہ میں وفاقی سطح پر سزائے موت پر پابندی کے باوجود کچھ ریاستیں موت کی سزا پر بدستور عمل درآمد کر رہی ہیں۔ سال 2019 میں امریکہ کی مختلف ریاستوں میں 22 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔
امریکہ میں عدالتی نظام مختلف عدالتوں میں بٹا ہوا ہے۔ زیادہ تر جرائم ریاستیں اپنے طور پر اپنی عدالتوں میں نمٹاتی ہیں اور ہر ریاست میں مختلف قوانین ہیں۔ لیکن کچھ جرائم وفاقی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جن میں سنگین نوعیت کے جرائم شامل ہیں۔