صدر براک اوباما نے جنوبی کوریا کے صدر لی میونگ باک سے ٹیلی فون پر گفتگو میں جنوبی کوریا کو تحفظ فراہم کرنے کے امریکی عزم کو دہرایا ہے۔ اُنھوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ امریکہ دوسرے ملکوں سے مل کر جنوبی کوریا کے ایک جزیرے پر شمالی کوریا کی طرف سے گولہ باری کی سخت مذمت کرے گا۔
واشنگٹن میں منگل کی رات جاری کیے گئے ایک بیان میں وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ دونوں صدور نے مشترکہ فوجی مشقوں کے علاوہ تربیتی منصوبوں کو توسیع دینے پر بھی اتفاق کیا تا کہ دونوں ملکوں کے درمیان پائے جانے والے اتحاد کی طاقت کا مظاہرہ کیا جا سکے۔
مسٹر اوباما نے صدر لی کو یہ بھی بتایا کہ امریکی عوام کے ”احساسات اور دعائیں“ منگل کو شمالی کوریا کی جانب سے کی گئی گولہ باری میں ہلاک ہونے والے جنوبی کوریا کے دو فوجیوں اور زخمی ہونے والے 18 دیگر افراد کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔
شمالی کوریا کے ساحل سے 12 کلومیٹر دور جزیرے پر گولہ باری کے بعد ہونے والی دوطرفہ کارروائی 1953ء میں ہوئی کوریائی جنگ کے بعد بڑی عسکری مہم جوئیوں میں سے ایک ہے۔
مسٹر اوباما کا کہنا تھا کہ پیانگ یانگ کو ایسے اشتعال انگیز اقدامات بند کر دینا چاہئیں جن کے نتیجے میں شمالی کوریا صرف عالمی سطح پر مزید تنہا ہو جائے گا۔
اس سے قبل صدر اوباما نے سلامتی سے متعلق اعلیٰ امریکی عہدیداروں سے ملاقات میں اس پیش رفت کا جائزہ لیا۔ تاہم امریکی خبررساں ادارے اے بی سی نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں جوابی فوجی کارروائی پر تبصرہ نہیں کریں گے۔
دریں اثناء امریکہ کی سربراہی میں کام کرنے والی اقوام متحدہ کی کمانڈ نے کشیدگی کم کرنے کے لیے شمالی کوریا سے بات چیت پر زور دیا ہے۔
کمانڈ کے سربراہ امریکی جنرل والٹر شارپ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شمالی کوریا کو ”یہ بلااشتعال حملے“ بند کر دینا چاہئیں اور کوریائی جنگ کے اختتام پر طے پانے والے معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیئے۔