کردوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے، شام کے صدر بشارالاسد نے شام کے کردوں کو نئی سیاسی آزادیاں دے دیں۔
اوباما انتظامیہ کی طرف سے شام کی سیاسی حزبِ اختلاف کو مضبوط بنانے کی کوششیں جاری ہیں اور اس کے ساتھ ہی شام کے کردوں اور شام کے صدر بشار الاسد سے جنگ کرنے والے گروپوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ کردش لیڈروں نے مسٹر اسد کے خلاف وسیع تر بغاوت میں شامل ہونے میں گرمجوشی کا اظہار نہیں کیا ہے اور ان کی ترجیح یہ رہی ہے کہ زیادہ علاقائی خود مختاری حاصل کی جائے۔
صدر اسد کے مخالفین انہیں ہٹانے کے لیے ایک متحدہ حکمت عملی تلاش کرنے کی جدو جہد کررہے ہیں، اور شام کے کردوں سے خود کو اس قضیے سے الگ رکھا ہے۔
کردوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے، بشارالاسد نے شام کے کردوں کو نئی سیاسی آزادیاں دے دیں۔ کرد ایک عرصے سے شام کے اندر اور باہر زیادہ خود مختاری کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ مالو انوسینٹ واشنگٹن کے کاٹو انسٹی ٹیوٹ میں مشرقِ وسطیٰ کی تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’اس طرح کرد بڑی مشکل میں پڑ گئے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ کیا ہمیں بغاوت کے لیے اپنی مدد جاری رکھنی چاہیئے یا ہمیں دور رہ کر یہ دیکھنا چاہیئے کہ کیا اسد اپنا اقتدار باقی رکھ سکتے ہیں؟‘‘
اب تک شام کی حزبِ اختلاف کو متحد کرنے کی جو بھی کوششیں ہوئی ہیں، کردش لیڈر ان سے الگ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ان کی خود مختاری کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی گئی ہے۔
شام کے باہر حزب اختلاف کے جو لیڈر ہیں، انھوں نے کہا ہے کہ کردوں نے اسد کے بعد کے دور میں، شام کی متحدہ مملکت سے اپنی وابستگی کا پوری طرح اظہار نہیں کیا ہے۔
یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں سینیئر ایڈوائزر سٹیو ہیڈیمین کا کہنا ہے کہ ’’ملک کے باہر شام کی حکومت کے مخالف گروپوں اور شام کے کردوں کے درمیان تعلقات بڑی حد تک بہت زیادہ کشیدہ رہے ہیں۔ اصل مسئلہ دونوں کے درمیان باہمی اعتماد کی کمی کا ہے۔‘‘
امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نلینڈ کہتی ہیں کہ اوباما انتظامیہ نے اسد کے مخالفین پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کردوں کو شامل کریں۔ ان کے مطابق ’’شام کے اندر سے ایسی کئی رپورٹیں ملی ہیں کہ کچھ علاقے جو آزاد کرا لیے گئے ہیں، ان میں کردوں اور سنیوں کی آبادیاں اچھی طرح مل جل کر رہ رہی ہیں۔ یقیناً ہم اس رجحان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔‘‘
تاہم، کردش آبادیوں کے بارے میں امریکہ کی پالیسی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کس ملک کی بات ہو رہی ہے۔
کی میں، اس بارے میں تشویش موجود ہے کیوں کہ شام کا سب سے بڑا کردش گروپ کردستان ورکرز پارٹی سے منسلک ہے، جو یورپی یونین اور واشنگٹن کی نظر میں دہشت گرد تنظیم ہے۔
اور عراق میں، امریکی فورسز نے کردوں کو صدام حسین سے بچایا اور گذشتہ دو عشروں کے دوران، ایسے حالات پیدا کیے جن میں کردستان کی تخلیق ہوئی جو خوب ترقی کر رہا ہے۔
سٹیو ہیڈیمین کہتے ہیں کہ شام کے کردوں نے اسد کے خلاف بغاوت میں پوری طرح حصہ لینے سے پہلو تہی کی ہے کیوں کہ ترکی اور عراق کے کردوں کے بارے میں ان کے مقاصد وسیع تر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’میرے خیال میں ایسا نہیں ہے کہ وہ شامی حکومت اور حزبِ اختلاف کی لڑائی کا تماشا دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ یہ ضرور محسوس کرتے ہیں کہ یہ وہ لمحہ ہے جس میں وہ اپنے دیرینہ مقاصد کو آگے بڑھا سکتے ہیں جن پر، ان کے خیال میں ابھی تک دونوں میں سے کسی بھی فریق نے توجہ نہیں دی ہے۔
یہ جنگ روز بروز کردش علاقوں میں مرکوز ہوتی جا رہی ہے کیوں کہ شمالی شام میں جنگ کی وجہ سے ہزاروں پناہ گزیں ترکی اور عراق کا رخ کر رہے ہیں۔
صدر اسد کے مخالفین انہیں ہٹانے کے لیے ایک متحدہ حکمت عملی تلاش کرنے کی جدو جہد کررہے ہیں، اور شام کے کردوں سے خود کو اس قضیے سے الگ رکھا ہے۔
کردوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے، بشارالاسد نے شام کے کردوں کو نئی سیاسی آزادیاں دے دیں۔ کرد ایک عرصے سے شام کے اندر اور باہر زیادہ خود مختاری کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ مالو انوسینٹ واشنگٹن کے کاٹو انسٹی ٹیوٹ میں مشرقِ وسطیٰ کی تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’اس طرح کرد بڑی مشکل میں پڑ گئے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ کیا ہمیں بغاوت کے لیے اپنی مدد جاری رکھنی چاہیئے یا ہمیں دور رہ کر یہ دیکھنا چاہیئے کہ کیا اسد اپنا اقتدار باقی رکھ سکتے ہیں؟‘‘
اب تک شام کی حزبِ اختلاف کو متحد کرنے کی جو بھی کوششیں ہوئی ہیں، کردش لیڈر ان سے الگ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ان کی خود مختاری کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی گئی ہے۔
شام کے باہر حزب اختلاف کے جو لیڈر ہیں، انھوں نے کہا ہے کہ کردوں نے اسد کے بعد کے دور میں، شام کی متحدہ مملکت سے اپنی وابستگی کا پوری طرح اظہار نہیں کیا ہے۔
یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں سینیئر ایڈوائزر سٹیو ہیڈیمین کا کہنا ہے کہ ’’ملک کے باہر شام کی حکومت کے مخالف گروپوں اور شام کے کردوں کے درمیان تعلقات بڑی حد تک بہت زیادہ کشیدہ رہے ہیں۔ اصل مسئلہ دونوں کے درمیان باہمی اعتماد کی کمی کا ہے۔‘‘
تاہم، کردش آبادیوں کے بارے میں امریکہ کی پالیسی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کس ملک کی بات ہو رہی ہے۔
کی میں، اس بارے میں تشویش موجود ہے کیوں کہ شام کا سب سے بڑا کردش گروپ کردستان ورکرز پارٹی سے منسلک ہے، جو یورپی یونین اور واشنگٹن کی نظر میں دہشت گرد تنظیم ہے۔
اور عراق میں، امریکی فورسز نے کردوں کو صدام حسین سے بچایا اور گذشتہ دو عشروں کے دوران، ایسے حالات پیدا کیے جن میں کردستان کی تخلیق ہوئی جو خوب ترقی کر رہا ہے۔
سٹیو ہیڈیمین کہتے ہیں کہ شام کے کردوں نے اسد کے خلاف بغاوت میں پوری طرح حصہ لینے سے پہلو تہی کی ہے کیوں کہ ترکی اور عراق کے کردوں کے بارے میں ان کے مقاصد وسیع تر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’میرے خیال میں ایسا نہیں ہے کہ وہ شامی حکومت اور حزبِ اختلاف کی لڑائی کا تماشا دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ یہ ضرور محسوس کرتے ہیں کہ یہ وہ لمحہ ہے جس میں وہ اپنے دیرینہ مقاصد کو آگے بڑھا سکتے ہیں جن پر، ان کے خیال میں ابھی تک دونوں میں سے کسی بھی فریق نے توجہ نہیں دی ہے۔
یہ جنگ روز بروز کردش علاقوں میں مرکوز ہوتی جا رہی ہے کیوں کہ شمالی شام میں جنگ کی وجہ سے ہزاروں پناہ گزیں ترکی اور عراق کا رخ کر رہے ہیں۔