واشنگٹن —
دوبارہ منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی اخباری کانفرنس میں صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ وہ اب بھی پُر امید ہیں کہ ایران کے جوہری معاملے کا کوئی سفارتی حل نکل آئے گا۔
مسٹر اوباما نے شام کی صورتِ حال کے بارے میں بھی بات کی۔
وائٹ ہاؤس کے سینئر نامہ نگار ڈین رابن سن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مسٹر اوباما سے زیادہ تر سوالات امریکی معیشت کے بارے میں کیے گئے، لیکن اُن سے شام اور ایران پر بھی سوالات پوچھے گئے۔
شام کے بارے میں صدر سے صدر بشار الاسد کی حکومت کی طرف سے جاری ظالمانہ کارروائی کے بارے میں پوچھا گیا، اور یہ معلوم کیا گیا کہ کیا امریکہ نئے تشکیل دیے گئے شامی حزب مخالف کے گروپ کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتا ہے۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ اِس پیش رفت سے اُنھیں تقویت ملی ہے اور یہ کہ امریکی ایلچی اتحاد کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔ تاہم، اُنھوں نے باضابطہ منظوری دینےکےبارے میں مزید کچھ نہیں کہا، جیسا کہ فرانس کر چکا ہے۔
اُنھوں نے امریکی تشویش کی نشاندہی کی کہ شامی اپوزیشن گروپ کو پہلے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بنیادی اصولوں پر کاربند ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اسد حکومت کی پُر تشدد کارروائیوں کے نتیجے میں شامی اپوزیشن کو کسی طور تقسیم نہیں ہونا چاہیئے۔
یہ معلوم کرنے پر کہ کیا امریکہ شام کی حزب مخالف کو ہتھیار فراہم کرنے پر غور کرے گا، صدر نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ انتہا پسند عناصر اپوزیشن کے حلقے میں گھس جاتے ہیں، جس بات پر نظر رکھنی ہوگی، خاص طور پر اپوزیشن کی شخصیات کو اسلحہ فراہم کرنے کے بارے میں سوچنے سے قبل۔
مسٹر اوباما سے یہ بھی پوچھا گیا آیا وہ مذاکرات کے ذریعے ایرانی نیوکلیئر تنازع کے حل کے لیے کسی نئی سفارتی پیش رفت پر غور کریں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ’بالکل‘ وہ ایسے ہی حل کے خواہاں ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ابھی تنازع کو سفارتی طور پر حل کرنے کا وقت ہے۔
مسٹر اوباما نے شام کی صورتِ حال کے بارے میں بھی بات کی۔
وائٹ ہاؤس کے سینئر نامہ نگار ڈین رابن سن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مسٹر اوباما سے زیادہ تر سوالات امریکی معیشت کے بارے میں کیے گئے، لیکن اُن سے شام اور ایران پر بھی سوالات پوچھے گئے۔
شام کے بارے میں صدر سے صدر بشار الاسد کی حکومت کی طرف سے جاری ظالمانہ کارروائی کے بارے میں پوچھا گیا، اور یہ معلوم کیا گیا کہ کیا امریکہ نئے تشکیل دیے گئے شامی حزب مخالف کے گروپ کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتا ہے۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ اِس پیش رفت سے اُنھیں تقویت ملی ہے اور یہ کہ امریکی ایلچی اتحاد کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔ تاہم، اُنھوں نے باضابطہ منظوری دینےکےبارے میں مزید کچھ نہیں کہا، جیسا کہ فرانس کر چکا ہے۔
اُنھوں نے امریکی تشویش کی نشاندہی کی کہ شامی اپوزیشن گروپ کو پہلے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بنیادی اصولوں پر کاربند ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اسد حکومت کی پُر تشدد کارروائیوں کے نتیجے میں شامی اپوزیشن کو کسی طور تقسیم نہیں ہونا چاہیئے۔
یہ معلوم کرنے پر کہ کیا امریکہ شام کی حزب مخالف کو ہتھیار فراہم کرنے پر غور کرے گا، صدر نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ انتہا پسند عناصر اپوزیشن کے حلقے میں گھس جاتے ہیں، جس بات پر نظر رکھنی ہوگی، خاص طور پر اپوزیشن کی شخصیات کو اسلحہ فراہم کرنے کے بارے میں سوچنے سے قبل۔
مسٹر اوباما سے یہ بھی پوچھا گیا آیا وہ مذاکرات کے ذریعے ایرانی نیوکلیئر تنازع کے حل کے لیے کسی نئی سفارتی پیش رفت پر غور کریں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ’بالکل‘ وہ ایسے ہی حل کے خواہاں ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ابھی تنازع کو سفارتی طور پر حل کرنے کا وقت ہے۔