امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل پر "متعصب" ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ اعلان منگل کو واشنگٹن میں امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اور اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نکی ہیلی نے الزام عائد کیا کہ کونسل کے ارکان اسرائیل کے خلاف ایک عرصے سے تعصب برتتے آرہے ہیں اور انسانی حقوق غصب کرنے والوں کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی کونسل "سیاسی تعصب کا گٹر" بن چکی ہے۔
نکی ہیلی کا کہنا تھا کہ امریکہ نے گزشتہ ایک سال کے دوران کونسل میں اصلاحات کی بہت کوششیں کیں لیکن انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔
امریکی سفیر نے روس، چین، کیوبا اور مصر پر امریکی کوششیں ناکام بنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان ملکوں پر بھی تنقید کی جو ان کے بقول "امریکی اقدار پر یقین رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ امریکہ کونسل کا حصہ رہے" لیکن "اسٹیٹس کو کو چیلنج کرنے سے گریزاں ہیں۔"
پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے انسانی حقوق کونسل کو "منافقت کے بے شرم مشق" قرار دیا۔
امریکی فیصلے پر ردِ عمل
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے کونسل چھوڑنے کے امریکی اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ "یہ متعصبانہ تنظیم چھوڑنے کا اعلان کرکے امریکہ نے واضح کردیا ہے کہ بس اب بہت ہوچکا۔"
تاہم اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی کئی عالمی تنظیموں نے ٹرمپ حکومت سے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹری جنرل کی خواہش ہے کہ امریکہ اس کونسل کا حصہ رہتا جو ان کے بقول دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ اور اس بارے میں آگہی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
انسانی حقوق کونسل کے سربراہ زید رعد الحسین نے امریکی اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کو پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھنا چاہیے۔
امریکہ میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم 12 نمایاں غیر سرکاری تنظیم نے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے نام ایک خط میں امریکی فیصلے پر اظہارِ افسوس کیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ کونسل کی تنظیم اور کارروائیوں پر امریکی تحفظات جائز ہیں لیکن ان کی بنیاد پر کونسل چھوڑدینے کا فیصلہ درست نہیں۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک بار پھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ظاہر کردیا ہے کہ وہ ان تمام بنیادی حقوق اور آزادیوں پر یقین نہیں رکھتے جن کا امریکہ بزعمِ خود پرچم بردار ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2006ء میں عالمی ادارے کی انسانی حقوق کونسل کے قیام کی منظوری دی تھی جس کا مقصد دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنا ہے۔
اس کونسل کا صدر دفتر جنیوا میں ہے اور اس کے 47 ارکان کا انتخاب تین سال کی مدت کے لیے کیا جاتا ہے۔
امریکہ ڈیڑھ سال قبل کونسل کا رکن منتخب ہوا تھا۔ گزشتہ سال جون میں نکی ہیلی نے کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کونسل کی رکنیت چھوڑنا نہیں چاہتا لیکن وہ "اس کونسل کی حیثیت کو بحال کرنے کا خواہش مند ہے۔"
انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ انسانی حقوق کونسل اپنے ایجنڈے کا ساتواں نکتہ ختم کردے جس میں فلسطین اور دیگر مقبوضہ عرب علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر نظر رکھنے کو کونسل کے اہداف میں شامل قرار دیا گیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے ڈیڑھ سالہ دورِ اقتدار کے دوران یہ تیسرا موقع ہے کہ امریکہ کسی عالمی ادارے یا معاہدے سے الگ ہوا ہے۔
اس سے قبل ٹرمپ انتظامیہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے طے پانے والے پیرس معاہدے اور ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015ء میں ہونے والے جوہری معاہدے سے الگ ہوچکی ہے۔
ٹرمپ حکومت اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت (یونیسکو) کی جانب سے فلسطین کو رکنیت دینے پر اسے اسرائیل مخالف قرار دیتے ہوئے رواں سال کے اختتام تک یونیسکو سے بھی الگ ہونے کا ارادہ ظاہر کرچکی ہے ۔
اس سے قبل ٹرمپ انتظامیہ نے رواں سال فلسطینی مہاجرین کی امداد اور بحالی کے عالمی ادارے 'یو این آر ڈبلیو اے' کو دی جانے والی امریکی امداد میں بھی 80 فی صد تک کٹوتی کردی تھی۔