بائیڈن انتظامیہ نے غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافے کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی جنگی کابینہ پر دباؤ ڈالا ہے کہ غزہ میں حماس کا وجود ختم کرنے کے لیے 10 ہفتےسے جاری مہم کے دائرہ کار کو محدود کرے۔
صدر جو بائیڈن نے اس ہفتے نیتن یاہو کی حکومت کے بارے میں سخت نکتہ چینی کی ۔ صدر نے ڈیموکریٹک پارٹی کے عطیہ دہندگان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو ’’اندھا دھند بمباری‘‘ کی وجہ سے بین الاقوامی حمایت کھونے کا خطرہ ہے اور نیتن یاہو کی حکومت کو سخت گیر مؤقف رکھنے والے عناصر سے خود کو الگ کرنا چاہئیے۔
SEE ALSO: یورپی اتحادیوں کا اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے زور، سلامتی کونسل میں ایک اور قرار دادامریکہ اور اسرائیل میں اس معاملے پر اتفاق نہیں ہے کہ نیتن یاہو کی جنگی کابینہ کو اپنے فوجی مقاصد کو کس انداز میں حاصل کرنا چاہئیے اور یہ کہ جنگ کے بعد غزہ کا نظم و نسق کون سنبھالے گا۔ اس تناظر میں بظاہر یوں لگتا ہے کہ صدر بائیڈن موجودہ تنازعہ سے ہٹ کر مستقبل کا جائزہ لے رہے ہیں ۔
صدر کےسخت الفاط سے یہ پیغام ملتا ہے کہ وہ اس تنازعے کے دو ریاستی حل کے لیےمناسب عناصر کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ دشمنی کو مستقل طور پر ختم کرتے ہوئے ایک آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل پر سوچ بچار کر رہے ہیں ۔
مشرق وسطیٰ میں امن کا حصول دہائیوں پرانا مقصد ہے جو سابق صدر جمی کارٹر کے بعد سے امریکی صدور کی کوشش تو رہا ہے تاہم اس کا حصول ممکن نہیں ہو سکا۔
صدر بائیڈن کے نکتہ نظر کی وضاحت کچھ اس انداز میں کی جاسکتی ہے ۔
SEE ALSO: صدر بائیڈن کے اسرائیل کی ’’اندھا دھند بمباری‘‘ کے ریمارکس پر وائٹ ہاؤس کی وضاحتاعتدال پسند اسرائیلی اتحاد
صدر بائیڈن کہتے ہیں کہ وہ حماس کو ختم کرنے کےاسرائیل کے مقصد کی حمایت کرتے ہیں لیکن ان کی دوسری ترجیح یہ ہے کہ ’’اسرائیل کو ایک ایسے انداز میں متحد کرنے کے لیے کام کیا جائے جو دو ریاستی حل کے آغاز کے لیےآپشن فراہم کرے ۔‘‘
صدر بائیڈن نے نیتن یاہو کی حکومت میں شامل اسرائیل کی قومی سلامتی کے وزیر، انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان اتمر بن گوئر، اور ایسے افراد کا ذکر کیا جو سخت گیر مؤقف کے حامل ہیں۔
یہ افراد کسی بھی نوعیت کے دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہیں اور جن کا واحد مقصد ’’انتقام‘‘ ہے۔
بن گوئر اور اسرائیل کی مذہبی اور انتہائی دائیں بازوسے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے دیگر ارکان نے نیتن یاہو کو گزشتہ سال اقتدار میں واپس آنے میں مدد دی، جس کے نتیجے میں ملک کی 74 سالہ تاریخ میں سخت ترین مؤقف رکھنے والی حکومت تشکیل پائی۔
حکومت نے مغربی کنارے میں بستیوں میں توسیع کی ہے اور اسرائیلی عدالتی نظام میں جبری طور پر ایسی اصلاحات کی ہیں جن کے نتیجے میں فلسطینیوں کے حقوق مزید سلب ہوئے ہیں۔
SEE ALSO: غزہ پراسرائیل کادوبارہ طویل قبضہ درست نہیں ہوگا، امریکی مشیربائیڈن نے کہا کہ نیتن یاہو کو اپنی حکومت میں تبدیلی لانی ہوگی کیونکہ یہ ’’ان کے لیے پیش رفت کو مشکل بنا رہی ہے۔‘‘ صدر بائیڈن کے اس بیان کو بعض لوگ اسرائیل میں بینی گینٹزجیسے اعتدال پسندوں کی جانب اشارہ سمجھتے ہیں ۔
بینی گینٹز حزب اختلاف کے ایک مقبول سیاست دان ہیں جو فلسطینی مقصد سے ہمدردی رکھتے ہیں اور جنہوں نے 7 اکتوبر کے بعد نیتن یاہو کی جنگی کابینہ میں شمولیت اختیار کی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکن یونیورسٹی کے سنٹر فار اسرائیل سٹڈیز کے ڈائریکٹر مائیکل برینر کا کہنا ہے کہ ’’امن کی واحد امید یہ ہے کہ نیتن یاہو اپنے دیگر شراکت داروں کے مقابلے میں گینٹز اور جنگی کابینہ کا انتخاب کریں اور یہ بات سمجھیں کہ دو ریاستی حل ہی مستقبل میں 7 اکتوبر کو ہونے والے واقعات کی روک تھام کے لیے واحد طویل مدتی حکمت عملی ہے۔‘‘
برینر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ ختم ہونے کے بعد نیتن یاہو کی طرف سے اس طرح کے اقدام کا زیادہ امکان تو نہیں لیکن یہ ناممکن بھی نہیں ہے۔امریکہ کی طرف سے دباؤ لازمی ہے تاکہ وہ اس آپشن پر غور کریں۔ ‘‘
SEE ALSO: غزہ میں لڑائی ہفتوں، فوجی سر گرمی مہینوں جاری رہ سکتی ہے : اسرائیلی وزیر دفاعنیتن یاہوکو 7 اکتوبر کے حملوں کو روکنے میں ناکامی پر مستعفی ہونے کے مطالبات کا سامنا ہے لیکن وہ اس سے پہلے بھی بدعنوانی کے الزامات سے نمٹ رہے تھے اور اپنی سیاسی بقاکی جنگ لڑ رہے تھے۔
ان کے ناقدین کا خیال ہے کہ وہ ایک طویل جنگ سے فائدہ اٹھانے کےخواہا ں ہیں کیونکہ اس سے ان کے بدعنوانی کے مقدمے میں تاخیر ہوگی اور اس بات کی تحقیقات میں بھی وقت لگے گا کہ ان کی حکومت حماس کے حملوں سے با خبر کیوں نہیں تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
واشنگٹن میں وقع تھنک ٹینک دی اٹلانٹک کونسل میں مشرق وسطیٰ کے امور کی ماہر عالیہ براہیمی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو بامعنی قیادت کی تبدیلی سے پہلے ’’ اپنے آپ پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ اسرائیلی معاشرے کو ابھی 7 اکتوبر کی ہولناکیوں پر کارروائی کرنا ہےاور فوج اور قیادت کی ناکامیوں کے بارے میں فیصلہ دینا ہے۔اسے خاص طور پر غزہ میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا اخلاقی جواز بھی تلاش کرنا ہے۔‘‘
وائس آف امریکہ کی نامہ نگار Patsy Widakuswaraکی رپورٹ۔