نومبر2010 میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات یہ طے کریں گے کہ امریکہ کے کانگرس میں صدر اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی آتی ہے یا حزب اختلاف کی رپبلکن جماعت۔ امریکی عوام کا یہ فیصلہ صدر اوباما کے پالیسی ایجنڈےکے لیے بہت اہم ہو سکتا ہے۔ لیکن فی الحال انتخابات سے قبل دونوں رپبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندوں کی اشتہاری مہم میں چین کا بہت ذکر کیا جا رہا ہے۔
امریکہ کی ڈیموکرٹیک اور رپبلکن پارٹی کے نمائندے اپنے سیاسی حریفوں کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک نیا طریقہ آزما رہے ہیں۔ اپنے سیاسی اشتہاروں میں دونوں پارٹیوں کے نمائندوں نے اپنے مخالفین پر الزام لگایا ہے کہ وہ آزاد تجارت اور چین میں کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے لیے ٹیکسوں میں رعایت کی حمایت کرکے امریکہ کا نقصان اور چین کی مدد کررہے ہیں۔
نومبر میں کانگرس کے وسط مدتی انتخابات کے لیے سخت مقابلہ جاری ہے۔ رائے عامہ کے جائزے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ امریکی عوام کی نظر اس سال افغانستان اور عراق میں امریکی کارروائیوں پر نہیں، بلکہ اندرون ملک معیشت اور بے روزگاری پر ہے۔ ایون ٹریسی کا تعلق انتخابات کی میڈیا مہم سے متعلق ایک گروپ سے ہے، جو کسی سیاسی پارٹی سے منسلک نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ چین ایک بہترین ولن ثابت ہورہا ہے۔ اس کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔ اور بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس لحاظ سے چین امریکہ کے لیے خطرہ ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ چین ان کی نوکری چھیننا چاہتا ہے یا چین ان کے ٹیکس کے پیسے استعمال کر رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے نمائندے انہی خیالات اور خدشات کو اپنے اشتہاروں میں ہوا دے رہے۔
ریاست اوہائیوسے مقابلہ کرنے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندے زیک سپیس کہتے ہیں کہ ان کے مخالفین آزاد تجارت کے حق میں ہیں۔ جس کی وجہ سے امریکیوں کی نوکریاں چین کو مل رہی ہیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اشتہاروں میں بات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے ڈین گرسولڈکا کہنا ہے کہ گلوبلائزیشن ایک حقیقت ہے اور امریکی عوام اور سیاست دانوں کو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ آج ہم ایک متوسط طبقے کی خدمات پر مبنی معیشت ہیں ۔ یعنی کہ 80 فی صد امریکی خدمات کے شعبے میں کام کرتے ہیں۔ کسی بھی ترقی یافتہ دولت مند ملک میں اقتصادی ترقی کا یہی رجحان ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی پالیسیاں بھی اس حقیقیت کو مد نظر رکھتے ہوئے تشکیل دینی چاہئیں۔
گرسولڈ سمیت دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکیوں کو حقیقت سے آگاہ کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو نوکریاں چین کے پاس جا چکی ہیں ، وہ اب امریکیوں کے حصے میں واپس نہیں آئیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ جو سیاست دان امریکہ کے اقتصادی مسائل کی ذمہ داری چین پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے، وہ اپنے ووٹروں کو غلط معلومات دے رہا ہے۔
لیکن ٹریسی اور کچھ دوسرے ماہرین کہتے ہیں کہ اس صورت میں حقائق کو پہچاننا بہت مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاست میں آپ کی مہم کا مقصد آپ کا موقف، آپ کا نقطہ نظر بیان کر نا ہوتا ہے۔ کیا ٹیکسوں میں رعایت کی وجہ سے نوکریاں چین کے پاس گئیں؟ ایسا بالکل ہوا۔ کیا اوباما کے امدادی منصوبے کی رقم سے چین کی کمپنیوں کو فائدہ ہوا؟ اس میں کوئی شک نہیں۔
یعنی کیا سچ ہے، اور کیا جھوٹ ۔ اس کا فیصلہ امریکی عوام کو کرنا ہے۔ لیکن چین کو اتنے سیاسی اشتہاروں میں منفی طور پر پیش کیا جا چکا ہے کہ سچ اور جھوٹ میں یہ تفریق امریکیوں کے لیے مشکل ثابت ہو سکتی ہے۔