وسط مدتی انتخابات میں نظریں نوجوان ووٹروں پر

  • ندیم یعقوب

وسط مدتی انتخابات میں نظریں نوجوان ووٹروں پر

امریکہ کے وسط مدتی انتخابات میں اب صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہےاور انتخابی مہم اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ صدر اوباما نوجوان نسل میں ایک بار پھر وہی جوش اور جذبہ ابھارنے کی بھرپور کوششیں کررہے ہیں، جو دوسال پہلے ان کے انتخاب کے موقع پر دیکھنے میں آیا تھا۔ وہ کئی کالجوں میں بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کر چکے ہیں مگر کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بے روزگاری کی بلند شرح اور معاشی بحالی کی سست روی ان کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن رہی ہے

2008ءکے امریکی صدارتی انتخابات میں 30سال سے کم عمر ووٹروں نے ریکارڈ تعداد میں ووٹ ڈالے تھے۔ ان میں سے دو تہائی نے اس وقت کے ڈیموکریٹک امیدوار براک اوباماکو ووٹ دیئے۔ری پبلیکن پارٹی کے ایک عہدیدار زیک ہوویل کو دو سال پہلے کا وقت یاد ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان دنوں کالج کیمپس میں ری پبلیکن ہونا کوئی اچھی بات نہیں تھی۔ اس پارٹی سے تعلق سب سے نامناسب چیز سمجھی جاتی تھی۔ اور کئی قدامت پسند قسم کے لوگ تو اس وقت چھپ سے گئے۔ مگر اس سال حالات بالکل مختلف ہیں ۔اب وہ محنت کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو ری پبلیکن اور قدامت پسند ظاہر کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

اب جب رائے عامہ کے جائزوں سے لگ رہا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کانگریس میں نشستیں ہارنے والی ہے تو صدر اوباما نوجوان نسل کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدواروں کے لئے ووٹ ڈالیں۔ حال ہی میں اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی میں تقریباً 35ہزار افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر کے عہدے کے لئے الیکشن لڑنے میں حکومت کرنے سے زیادہ گلیمر تھا۔

اب ہم صرف تبدیلی کی وکالت نہیں کر رہے۔ ہم تبدیلی کے لئے ہی نہیں کہہ رہے۔ ہم تبدیلی کے لئے خوب محنت کر رہے ہیں۔ کبھی کبھار مایوسی ہوتی ہے۔ مگر ہم ہر روز تھوڑی تھوڑی تبدیلی لا رہے ہیں ۔ یہ آسان نہیں ۔ یقین کریں مجھے معلوم ہے یہ آسان نہیں۔

صدر نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ 2008ءکے جذبے کو زندہ کریں اور دیر پا تبدیلی کے لئے کام کرتے رہیں۔ نوجوان کو ووٹ رجسٹر کرنے کے لئے تیار کرنے والی ایک تنظیم راک دی ووٹ کی عہدیدار ہیتھر سمتھ کہتی ہیں بہت سے نوجوان صدر اوباما کے یک دم متوجہ ہونے سے کچھ خائف ہیں۔

رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے سے پتہ چلا ہے کہ نوجوان ڈیموکریٹس میں صرف 27فی صدانتخابات میں ووٹ ڈالنے کی طرف مائل ہیں۔ ری پبلیکن پارٹی میںٕ 39فی صد ووٹ ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔زیک ہوویل کہتے ہیں کہ نوجوانوں کے لئے روزگار سب سے اہم مسلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سارا مسلہ معیشت کا ہے۔ اس وقت کالج سے فارغ التحصیل طلباوطالبات میں سے اس وقت 20 فی صد کے پاس روزگار نہیں ہے۔ اس لئے نوجوان طبقہ اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہے۔

راک دی ووٹ کی ہیتھر سمتھ کہتی ہیں کہ نوجوانوں کو اپنے مستقبل کی فکر ہے ۔ اور بڑوں کے مقابلے میں ان کے کم تعداد میں ووٹ ڈالنے کی بھی وجوہات ہیں۔ ان کا کہناتھا کہ یہ عمل ان لوگوں کے لئے نیا ہے ۔ ان میں سے اکثریت کو پہلی بار ووٹ ڈالنے کےلئے اپنا ووٹ رجسٹر کرنا ہوگا۔ 2008ءکے بعد سے اب تک تقریباً 90لاکھ نوجوان 18سال کی عمر کو پہنچے ہیں۔ ان سب کو ووٹ کے لئے رجسٹر کرنا ہوگا۔مگر نوجوانوں کی آسانی کے لئے ہمارے پاس سہولتیں نہیں موجود نہیں ہیں۔

ڈیموکریٹس انتخابات کی رات کچھ بڑے حیران کن نتائج پر امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اور دونوں سیاسی جماعتیں توقع رکھتی ہیں کہ نوجوان ووٹرز بڑی تعداد میں ان کے امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لیے نکلیں گے۔