واشنگٹن پوسٹ نے تیونس کی مثال کے عنوان سے ایک ادارئیے میں کہا ہے کہ اس نئے نئے آزاد عرب ملک نے جس طرح آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے ہیں وہ تعریف کے مستحق ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ اس سال کے اوائل میں تیونس نے ایک عرب ڈکٹیٹر کے خلاف وسیع پیمانے کی بغاوت کرکے ایک مثال قائم کی تھی۔ اور اب اس نے جمہوریت کے دور میں داخل ہونے کا جو بڑا قدم اٹھایا ہے وہ بھی ایک نمونہ ہے۔ اب اس نے اپنی تاریخ کے سب سے زیادہ آزادانہ انتخابات کرائے ہیں۔ جن کا شمار پورے مشرق وسطیٰ کے بہترین انتخابات میں ہوگا۔ ایک نئی آئین ساز اسمبلی کا انتخاب کیا گیا ہے جو عبوری حکومت بنائے گی اور نیا آئین مرتّب کرے گی۔
جن غیرملکی مبصّرین نے انتخابات کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کی بھاری تعداد نےان میں منظّم طریقے سے شرکت کی۔ اور اکثر نے مسرّت کا اظہار کیا۔ اخبار کہتا ہے کہ مصر، لبیا، اور دوسرے ملکوں کے لئے، جہاں آزادانہ انتخابات ابھی ہونا ہیں تیونس نے یہ ثبوت فراہم کیا ہے کہ عشروں پرمحیط ڈکٹیٹرشپ کے چند ہی مہینوں کے اندر اندر محفوظ اور منصفانہ انتخابات کرانا ممکن ہے۔
تیونس کی بڑی اسلام پسند پارٹی النہضہ پارٹی نے ان انتخابات میں اپنی فتح کا دعویٰ کیا ہے۔اور واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ یہ بات بھی ایک مثبت مثال ثابت ہو سکتی ہے ۔ اس پارٹی نے بار بار کہا ہے کہ ۔وہ نہ تو اقتدار پر اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہے۔اور نہ ہی بنیاد پرست نظام مسلٓط کرنا چاہتی ہے۔ پارٹی کے لیڈر رشید غنُوشی نے ، جو کئی عشروں تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار چکے ہیں ۔ کہا ہے ، کہ ان کی پارٹی ترکی کی اے کے پی پارٹی کی طرز پر کام کرے گی۔ اور سیکیولر پارٹیوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائے گی۔ ان سیکیولر پارٹیوں میں سے ، لگتا ہے، کہ دو نے دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کر لی ہے
اخبار نے مصر کی فوجی حکمران کونسل کو مشورہ دیا ہے کہ اُسے اُس طریق کار کی تقلید کرنی چا ہئے جس کی بدولت تیونس میں انتخابات کامیابی کے ساتھ سرانجام پائے۔
وال اسٹریٹ جرنل نے بھی تیونس کے انتخابات کو پہلے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات قرار دیتے ہوئے کہا ہے ۔ کہ امریکی رکن کانگریس جین ہرمن کی قیادت میں واشنگٹن سے جو وفد انتخابات کا مشاہدہ کرنے آیا تھا اس نے بھی کہا ہے کہ انتخابات بلاشُبہ بہترین تھے۔
اخبار کے بقول پارٹی لیڈرغنُوشی نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی مذہبی پارٹی نہیں ہے بلکہ اسی طرح کی سول اور سیاسی پارٹی ہے جس طرح یورپ میں، کرسچن ڈیموکریٹک پارٹیاں ہوتی ہیں۔
ڈیلّس مارننگ نیوز ایک اداریئے میں کہتا ہے کہ صدر اوباما کا یہ اعلان کہ تمام امریکی فوجیں، اس سال کے آخرتک عراق سے واپس آجائیں گی، اور یہ بات نہ تو فتح یا شکست کی ہے بلکہ جنگ کے خاتمے کی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا ۔ کیونکہ عراقی حکومت امریکی فوجیوں کو مقدّموں سے استثنیٰ دینے کے لئے تیار ہی نہیں تھی، اخبار کہتا ہے کہ اس بدلتی ہوئی دنیا میں جنگوں کا خاتمہ اسی طور پر ہوتا ہے۔ معاہدے اور ٹکّر ٹیپ والی پریڈیں اب خوشگوار یادیں بن کر رہ گئی ہیں۔ اور ماضی کی تاریخ کا حصّہ بن کر رہ گئی ہیں۔