امریکہ میں وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست کے بعد صدر براک اوباما اکثریت حاصل کرنے والی ریپبلیکن جماعت کے ساتھ مفاہمت پر زور دے رہے ہیں لیکن ریپبلیکنز نے کہا ہے کہ تعاون صرف اس صورت میں ممکن ہے جب مسٹر اوباما اُن کی متعین کردہ سمت میں آگے بڑھیں۔
سینٹ میں ریپبلیکن رہنما مچ میکونل جمعرات کو واشنگٹن میں قدامت پسند ہیریٹج فاؤنڈیشن سے خطاب میں یہ امر واضح کریں گے۔
اُن کی تقریر کے تیار شدہ بیان کے اقتباسات کے مطابق میکونل اپنے اُس تبصرے کا بھی دفاع کریں گے جس میں اُن کا کہنا تھا کہ آئندہ دو سالوں میں ریپبلیکنز کی اولین ترجیح مسٹر اوباما کو دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے سے روکنا ہونی چاہیئے۔ اُن کا موقف ہے کہ ریپبلیکن جماعت کے لیے صدر اوباما کے صحت عامہ سے متعلق بِل کی منسوخی اور ملکی اخراجات سمیت حکومت کے حجم میں کمی سے متعلق اپنے اہداف حاصل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس میں ریپبلیکن صدر ہو ، جو جماعت کے اقدامات کو ویٹو نہ کرے۔
ریپبلیکنزنے منگل کو ہونے والے انتخابات میں ایوان نمائندگان میں اکثریت حاصل کی تھی جب کہ سینٹ میں بھی جماعت کی پوزیشن مستحکم ہوئی لیکن ایوان بالا پر ڈیموکریٹس کا کنٹرول برقرار ہے۔
مسٹر اوباما نے انتخابات میں اپنی جماعت کی شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیموکریٹک جماعت کو ہونے والے نقصانات ملک میں معیشت کی صوتحال کے حوالے سے پائی جانے والی مایوسی کی عکاسی کرتے ہیں۔
بدھ کو وائٹ ہاؤس میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ وہ معیشت میں تیزی کے ساتھ بہتری نا ہونے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ اُنھوں نے ریپبلیکنز کے ساتھ مشترکہ مفادات پر اتفاق کرنے کا اعادہ بھی کیا۔
تاہم ریپبلیکنز کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ انتظامیہ اپنا لائحہ عمل تبدیل کرے ۔
میکونل جمعرات کو اپنی تقریر میں یہ اعلان کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں کہ نئی کانگریس میں ریپبلیکنز تواتر کے ساتھ صدر اوباما کے صحت عامہ سے متعلق قانون کی منسوخی کے لیے ووٹنگ کی تجاویز دیں گے۔
محض چار برس قبل سینٹ اور ایوان نمائندگان کے کنٹرول سے محروم ہونے والی ریپبلیکن جماعت کے لیے حالیہ فتح ایک اہم پیش رفت ہے۔ انتخابات میں ایوان کے نمائندگان کی تمام 435 نشستوں جب کہ سینٹ کی ایک سو میں سے 37 نشستوں پر مقابلہ ہوا۔ ان انتخابات میں ریپبلیکن جماعت کے کم از کم گیارہ امیدوار ایسی ریاستوں کے گورنر منتخب ہوئے ہیں جہاں اس عہدے پر ڈیموکریٹس فائزتھے۔