صدر اوباما کا ’گن کنٹرول‘ کے لیے نئے اقدامات کا اعلان

نئی پالیسی کے تحت بندوق فروخت کرنے والوں کے لیے لائسنس حاصل کرنا ضروری ہوگا جب کہ اسلحہ خریدنے والوں کے لیے ’بیک گراؤنڈ چیک‘ لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔

’گن کنٹرول‘ کے حوالے سے اقدام میں کانگریس کا مزید انتظار کیے بغیر، امریکی صدر براک اوباما نے لائنس اسلحے سے ہونے والی تشدد کی وارداتوں میں کمی لانے کے لیے نئے ’عام فہم‘ اقدامات کے ایک سلسلے کا اعلان کیا ہے، جس معاملے پر امریکی عوام شدید طور پر منقسم ہے۔

منگل کے روز وائٹ ہاؤس سے خطاب میں، اوباما نے نئی پالیسیوں کا اعلان کرتے ہوئے، سخت گن کنٹرول اقدام کرنے میں ناکامی پر قانون سازوں کو ہدفِ تنقید بنایا، حالانکہ ماضیِ قریب میں شوٹنگ کی ایک لہر سے سابقہ پڑ چکا ہے۔

صدر اوباما کے بقول، ’ہم دنیا کا وہ واحد ترقی یافتہ ملک ہیں جہاں ہم آئے دِن اِس قسم کی کھلے عام تشدد کی کارروائیاں دیکھتے رہتے ہیں۔ صدر کے خطاب کے دوران، ایسٹ روم میں شوٹنگ کے واقعات میں ہلاک ہونے والے لواحقین موجود تھے۔

بقول صدر، ’لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔ اور اقدام میں مستقل تساہل برتا جانا اب برداشت کے قابل نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم یہاں جمع ہیں، ہم ماضیِ قریب والی کھلے عام شوٹنگ کے واقعے کا تذکرہ نہیں کریں گے، بلکہ اگلی ہلاکتوں کو روکنے کی تدبیر کریں گے۔‘

انتظامی اقدام کے تحت بندوق فروخت کرنے والوں کے لیے لائسنس حاصل کرنا ضروری ہوگا، جب کہ اسلحہ خریدنے والوں کے لیے ’بیک گراؤنڈ چیک‘ لازم ہوگا۔ لیے گئے اقدامات کے تحت، اسلحہ رکھنے کے مروجہ قوانین کے نفاذ میں سختی برتی جائے گی، دماغی صحت کے علاج کا زیادہ انتظام ہوگا اور اسلحے کے تحفظ کی ٹیکنالوجی کے بارے میں تحقیقی کام کو وسعت دی جائے گی۔

صدر نے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ تشدد کی ہر کارروائی اور دنیا کی ہر برائی کو روکا نہیں جا سکتا۔ لیکن، عین ممکن ہے کہ کسی ایک شیطانی عمل کو سرزد ہونے سے روکا جا سکے۔‘ خطاب کے دوران صدر کئی بار آبدیدہ ہوگئے۔

ایک مقام پر صدر نے آنسو پوچھے، جب وہ 20 جوان بچوں اور چھ افراد کا ذکر کر رہے تھے، جو 2012ء میں ریاست کنٹی کٹ کے شہر نیو ٹاؤن کے ایک ایلیمنٹری اسکول میں ہونے والی شوٹنگ کی ایک کھلی واردات میں ہلاک ہوئے۔

آبدیدہ صدر نے کہا کہ ’ہر بار جب میں اُن بچوں کے بارے میں سوچتا ہوں، میں اپنے اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکتا‘۔

اُنھوں نے اس نکتہ چینی کو بھی مسترد کیا کہ وہ آئینی طور پر عطا کردہ ہتھیار رکھنے کے حق پر پابندی لگا رہے ہیں۔ ’یہ کوئی سازش نہیں ہے جس کے تحت ہر ایک سے اُس کی بندوق چھین لی جائے گی‘۔
ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے اوباما کئی ماہ سے کہہ رہے ہیں کہ وہ یکطرفہ طور پر اقدام کرتے ہوئے اسلحے کے زور پر تشدد کی کارروائیوں کو روکنے کی تدبیر کرنے والے ہیں، اور کانگریس، جس میں ریپبلیکن پارٹی کی اکثریت ہے، سے صرف نظر کریں گے، جنھوں نے اُن کی جانب سے گن کنٹرول کے لیے پیش کردہ پچھلی تجاویز کو مسترد کر دیا تھا۔

صدر نے کہا کہ نئے ضوابط پر مبنی نیا اقدام صدراتی اختیارت کے عین مطابق ہے۔

ریپبلیکن پارٹی کا ردِعمل

ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان نے، جو عام طور پر گن کنٹرول کے اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں، صدر کی تجاویز پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اپنے اختیارات سے کھلے تجاوز کی مترادف ہیں۔

ریپبلیکن پارٹی کے متعدد صدارتی امیدوار پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ منتخب ہونے پر وہ اِن ضابطوں کو بدل دیں گے۔

ریپبلیکن پارٹی کے سرکردہ امیدوار، ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز ’سی این این‘ کو بتایا کہ اوباما کی تجاویر گن کنٹرول پر سخت پابندیاں لگانے کی جانب پہلا قدم ہیں۔ بقول اُن کے، ’بہت جلد آپ سنیں گے کہ آپ اسلحہ نہیں رکھ سکتے۔ یوں کہیئے کہ یہ ہتھیار رکھنے کی اجازت چھیننے کی جانب ایک اور قدم ہے‘۔

ایوان کے اسپیکر، پال رائن نے اِن تجاویز کو ’انتظامی سطح کا خطرناک تجاوز‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر ’مقننہ کے اختیارات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ایوان کی فرائض کی انجام دہی میں حائل ہو رہے ہیں‘۔

’نیشنل رائفل ایسو سی ایشن‘ نے، جو ہتھیار رکھنے والوں کی ایک طاقتور تنظیم ہے، اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ نئے ضابطوں کو عدالت میں چیلنج کرنے کے بارے میں غور کر رہی ہے۔

تاہم، ’نیو یارک ٹائمز‘ نے ’این آر اے‘ کے ایک ترجمان کے حوالے سے کہا ہے کہ تنظیم اِن اقدامات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔