نیٹو نے کہا ہے کہ لیبیا پر فضائی حملوں کا مقصد حکومت کی تبدیلی نہیں ہے بلکہ شہری آبادیوں کا تحفظ ہے۔
ایک غیر معمولی تبصرے میں امریکی صدر اوباما، برطانوی وزیرِ اعظم کیمرون اور فرانس کے صدر سرکوزی نے کہا ہے کہ معمر قذافی نے اپنے عوام کا قتلِ عام کیا ہے۔ اور اب اُن کی حکمرانی کو جاری رکھنے کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہیں ہے، اور یہ قذافی کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے والے عوام کے ساتھ بے وفائی کے مترادف ہوگا، جس کی ضمیر اجازت نہیں دیتا۔
’دی انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘، ’ٹائمز آف لندن‘ اور ’لفگارو‘ میں جمعے کے دِن شائع ہونے والے اُس ادارتی مضمون کا مقصد فضائی مہم کے سلسلے میں نیٹو کے اندر نزاع کے پیدا ہونے کے بارے میں عوامی تاثر کو ضائل کرکے اتحادیوں کے یکجا ہونے کو اجاگر کرنا ہے۔
تینوں رہنماؤں نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل کی قرارداد 1973کے تحت یہ اُن کی ذمہ داری اور فرض ہے کہ وہ مسٹر قذافی کو طاقت کے ذریعے ہٹانے کی بجائے عام شہریوں کو تحفظ فراہم کریں۔ تاہم، اُنھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ قذافی کی حکومت کے برقرار رہتے ہوئے لیبیا کے مستقبل کے بارے میں تصور کرنا ناممکن ہے۔
دوسری طرف، باغی نیٹو سے مسلسل یہ اپیل کررہے ہیں کہ وہ فضائی حملوٕں میں تیزی لائے۔ چناچہ، اِسی تناظر میں امریکہ سے کہا جارہا ہے کہ وہ اِن حملوں میں قائدانہ کردار ادا کرے۔
مگر جمعے کے دِن ایسو سی ایٹڈ پریس کو دیے جانے والے ایک نشریاتی انٹرویو میں صدر اوباما نے کہا کہ نیٹو کے ساتھ مل کر امریکی افواج نے جو کردار ادا کیا ہے اور نیٹو نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ متاثر کُن ہیں اور حملوں کی اِس مہم میں اِس سے زیادہ امریکی حصہ ضروری نہیں ہے۔
صدر کے الفاظ میں: ’اپنےاتحادی ساتھیوں کی جانب سے ہم کو اچھا تعاون اور اشتراک حاصل رہا ہے۔ وہ بالکل وہی کررہے ہیں جس کا اُنھوں نے وعدہ کیا تھا۔ وہ نشانے لگا کر حملے کر رہے ہیں اور ہم جام کرنے کی اہلیت، انٹیلی جنس اور ایندھن فراہم کر رہے ہیں۔‘
صدر نے کہا کہ قذافی کی فوجیں سُکڑ رہی ہیں اور فنڈز اور ضروری سامان ِ حرب ختم ہو رہا ہے۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ اگر یہ دباؤ طویل عرصے تک جاری رہا تو، بقول اُن کے، قذافی کو جانا
پڑے گا اور ہمیں فتح حاصل ہوگی۔