امریکی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہل کار نے توقع کا اظہار کیا ہے کہ دوحہ امن سمجھوتے پر عمل درآمد میں مدد دینے کے لیے پاکستان اپنا تعمیری کردار ادا کرے گا۔
وہ امن معاہدے کے حوالے سے منعقدہ ایک خصوصی اخباری بریفنگ کے دوران سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔ ان سے سوال کیا گیا آیا امریکہ کو پاکستان میں دہشت گردوں کے مبینہ محفوظ ٹھکانوں پر تشویش ہے، جہاں سے طالبان اور القاعدہ سے رابطے کی اطلاعات ہیں، جو افغان امن کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
اہل کار نے کہا کہ ''اس ضمن میں، پاکستان کے ساتھ بہت ہی اچھی بات چیت ہوئی ہے''؛ اور یہ کہ ''اب ہم پاکستان اور افغانستان کے درمیان مکالمے کے لیے سہولت کاری فراہم کر رہے ہیں''۔
یہ معلوم کرنے پر کہ معاہدے میں واضح طور پر القاعدہ کا نام کیوں نہیں لیا گیا، اہل کار نے کہا کہ نہ صرف القاعدہ کا نام لیا گیا ہے بلکہ ان اقدامات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جو القاعدہ کے خلاف طالبان اٹھائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ لوگوں کو دونوں کے تاریخی مراسم پر تشویش رہی ہے۔
بقول اہل کار، ''ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان نے نہ صرف ان مراسم کا اقرار کیا ہے بلکہ ساتھ ہی القاعدہ کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے سلسلے میں فیصلہ کُن اور تاریخی پہلا قدم اٹھایا ہے۔ اس معاملے پر چوکسی رکھی جائے گی''۔
بین الافغان مذاکرات سے متعلق سوال پر اعلیٰ امریکی اہل کار نے کہا کہ یقینی طور پر کابل میں حکومت، طالبان اور متمدن معاشرے کے ارکان کے درمیان مکالمہ ہو گا۔ اس کے لیے ضروری ہو گا کہ ابتدا میں ایک قومی ٹیم تشکیل دی جائے جس میں افغان حکومت، طالبان اور سول سوسائٹی کے نمائندے شامل ہوں جو مل بیٹھ کر افغان مفاہمت پر بات چیت کریں۔
انھوں نے کہا کہ عین ممکن ہے کہ اس کے لیے ایک سے زیادہ ٹیمیں تشکیل دی جائیں جو مرحلہ وار گفت و شنید کریں، ہو سکتا ہے رہنمائی یا مشاورت کے حوالے سے علیحدہ ٹیمیں ہوں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہو گا چونکہ افغانستان میں معاشرے میں کئی طرح کی دھڑے بندی ہے، جن گھتیوں کو سلجھانا ہو گا۔ تاہم، اس سے متعلق تفصیل فریقین کو خود طے کرنا ہوگی۔
اہل کار نے کہا کہ اس راہ میں سخت رکاوٹیں آئیں گی، جنھیں پار کرنا ہو گا۔