توانائی کے تجزیہ کاروں کے خیال میں اس سال تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات میں ہمیشہ کی طرح ان عوامل کا دخل ہے۔ بھارت اور چین جیسے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ملکوں میں تیل کی مانگ میں اضافہ، بعض علاقوں میں جیسے امریکہ کے مشرقی ساحل پر تیل کے کنویں کھودنے پر پابندی اور لیبیا جیسے تیل پیدا کرنے والے ملکوںمیں خلفشار اور بد امنی۔ لیکن پٹرول ایسے سرمایہ کاروں کے لیے بھی پُر کشش ہو گیا ہے جو مستقبل میں اس سے منافع کمانا چاہتےہیں۔ مستقبل کے سودوں میں وہ جو ڈالر لگاتے ہیں اس سے کبھی کبھی مارکیٹ کی موجودہ حالت مسخ ہو جاتی ہے۔
آج کل سرمایہ کاری کے لیے دستیاب بیشتر پیسہ مختلف قسم کے managed فنڈز میں لگا ہوا ہے ۔ Oil Price Information Service کے ٹام کلوزا کہتے ہیں کہ ان فنڈز کے منیجرز، تیل کی قیمت سمیت ، اشیاء کی قیمتوں پر بہت گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔ وہ چند بٹن دبا کر اربوں ڈالر مارکیٹ میں منتقل کر سکتے ہیں اور ایسی اشیاء کی قیمتوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں جو ساری دنیا کے صارفین کے لیے بے حد اہم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومتیں مکمل طور سے سٹے بازی ختم نہیں کر سکتیں، لیکن کسی قسم کا ضابطہ بہر حال ضروری ہے ، خاص طور سے امریکہ کے باہر کے ملکوں میں۔
کویت میں اس ہفتے اوپیک کے سیکرٹری جنرل عبداللہ البدری نے کہا کہ آج کل تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ رسد اور مانگ کی بنیاد پر نہیں بلکہ بڑی حد تک سٹے بازی کی وجہ سے ہور ہا ہے۔ کلوزا اور دوسرے تجزیہ کاروں کے خیال میں تیل کی قیمت میں اضافے کی بڑی وجہ سٹے بازی نہیں ہے، لیکن وہ سارا الزام اوپیک پر بھی ڈالنا نہیں چاہتے۔
سعودی عرب نے جو اوپیک کا رکن ہے اور جہاں دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر ہیں، اپنی پیداوار میں کچھ کمی کر دی ہے۔ اوپیک کے ناقدین کہتے ہیں کہ اس طرح رسد کم ہو گئی ہے اور تیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ لیکن ٹام کلوزا کا خیال ہے کہ خود اوپیک کے لیڈروں کو تیل کی اونچی قیمتوں پر تشویش ہے ۔ ان کے مطابق ‘‘میرے خیال میں خود اوپیک کے اندر بہت سے اعتدال پسند ممالک قیمتوں کے بڑھتے ہوئے رجحان پر پریشان ہیں کیوں کہ اگر قیمتیں اسی شرح سے بڑھتی رہیں، تو ہم بعض متبادل ٹکنالوجیوں کے لیے دروازہ کھول دیں گے۔ قیمتیں نہ بڑھتیں تو ان متبادل ٹکنالوجیوں کو حکومت کی طرف سے اعانت یا امدادی رقوم کی ضرورت ہوتی۔’’
گلوبل انٹیلی جنس کمپنی اسٹریٹفور کے پیٹر زیحان کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ بعض ایسے ملک جو اوپیک کے رکن نہیں ہیں، جیسے چین ، تیل کی قیمتوں میں اضافے میں اہم کردار ادا کر رہے ہوں اور اس میں ان
کی تیل کی مانگ کا دخل نہ ہو بلکہ تیل میں سرمایہ کاری بنیادی کردار ادا کر رہی ہو۔ زیحان کہتے ہیں کہ اگرچہ سرمایہ کاری کا پیسہ دنیا بھر سے آتا ہے لیکن اس کا ایک بہت بڑا ذریعہ چین ہے جو امریکہ سے اور دوسرے ملکوں سے جو اس کی اشیاء خریدتے ہیں، ڈالر وصول کرتا ہے۔ چین نے اس پیسے کا بہت بڑا حصہ oil futures یعنی تیل کے مستقبل کے سودوں میں لگا دیا ہے۔
لیکن اسٹریٹفور کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بالآخر جیت رسد اور مانگ کے بنیادی قوانین کی ہی ہوتی ہے اور پھر، جیسا کہ 1998ء،2001ء اور حال ہی میں 2008ء میں ہوا، تیل کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’جلد یا بدیر معیشت کے بنیادی اصول سرمایہ کاری کے جوش و خروش پر غالب آ جائیں گے۔ ہر چند سال بعد ایسا ہی ہوتا ہے۔ بالآخر بنیادی قوانین منڈی میں تیزی کو قابو میں کر لیں گے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ چند ہفتوں میں اچانک، تیزی سے قیمتیں گرنا شروع ہو جائیں گی۔’’
زیحان یہ پیش گوئی نہیں کر رہے ہیں کہ ایسا کب ہوگا۔ اس دوران وہ یہ دیکھ رہےہیں کہ تیل کی اونچی قیمتوں کی وجہ سے اس کے استعمال میں کفایت کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور کم ایندھن خرچ کرنے والی کاروں کی فروخت میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن ان کے خیال میں مستقبل قریب میں ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ تیل کا متبادل دریافت کر لیا جائے۔