پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی مارک گراسمین نے رواں ہفتے اسلام آباد میں پاکستانی قائدین بشمول صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے دوطرفہ تعلقات کی بحالی سے متعلق امور پر تفصیلی بات چیت کی۔
لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے واقعے پر امریکہ سے باضابطہ معافی کے پاکستانی مطالبات کے باعث فریقین کو سفارتی تناؤ کم کرنے میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔
صدر آصف علی زردای نے جمعہ کی شام مارک گراسمین سے ملاقات میں کہا تھا کہ ان کے ملک نے امریکہ کے ساتھ شفافیت، باہمی احترام اور مشترکہ مفاد پر ازسر نو تعلقات استوار کرنے کے لیے جمہوری طریقہ اختیار کیا۔
’’اب امریکہ کی باری ہے کہ وہ پارلیمان کے متعین کردہ رہنما اصولوں پر چلنے اور سلالہ میں فوجی چوکیوں پر حملے کے معاملے کو کسی منطقی انجام تک پہنچانے میں حکومت پاکستان کی معاونت کرے۔‘‘
امریکہ سے مستقبل کے تعلقات سے متعلق پاکستانی پارلیمان نے متفقہ طور پر منظور کردہ سفارشات میں واشنگٹن سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ وہ سلالہ چیک پوسٹ پر فضائی حملوں پر غیر مشروط معافی مانگے۔
سابق سیکرٹری خارجہ تنویر احمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مارک گراسمین کی پاکستانی رہنماؤں سے ہونے والی ملاقاتوں میں بھی ایک بار پھر اسلام آباد ان ہی مطالبات کو دہرایا جن کا ذکر پارلیمانی سفارشات میں کیا گیا ہے۔
’’معافی مانگنے کے بے شمار انداز ہوتے ہیں، اگر 24 ہلاکتیں ہوئی ہیں تو پھر ان سے فوج پر کتنا بڑا اثر پڑا اس پر بھی سوچنا چاہیئے۔۔۔۔ تو گراسمین کوئی ایسی چیز لے کر نہیں آئے تھے کہ وہ کامیاب لوٹتے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سمت درست ہے اور بتدریج حالات بہتر ہو جائیں گے۔‘‘
ادھر امریکہ کے ایک موقر اخبار نے کہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے سلالہ کی فوجی چوکی پر فضائی حملے پر واشنگٹن سے ’’غیر مشروط معافی‘‘ کے مطالبے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات میں تعطل کی بحالی کے لیے ہونے والے مذاکرات ’’ناکام‘‘ ہو گئے ہیں۔
امریکہ اس واقعے پر باضابطہ ’’معافی‘‘ سے انکاری ہے جس کے ردعمل کے طور پر پاکستان نے افغانستان میں تعنیات نیٹو افواج کے لیے اپنی سرزمین کے راستے رسد کی فراہمی بند کردی تھی۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ 15 اپریل کو کابل میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں سے قبل پاکستان سے ’’معافی‘‘ طلب کرنے یا نہ کرنے پر ’’سنجیدہ بحث‘‘ کرتا رہا ہے۔ امریکی فوجی اور انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مقیم دہشت گرد گروپ حقانی نیٹ نے کیے۔
نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے بعد امریکہ میں ہونے والی بحث کا رخ تبدیل ہوگیا کہ آیا صدر اوباما یا کوئی اور اعلیٰ امریکی عہدیدار اظہار افسوس سے آگے بھی جاتے ہیں یا نہیں۔ امریکہ سلالہ فضائی حملے پر افسوس کا اظہار پہلے ہی کرچکا ہے۔
پاکستانی حکام کہتے ہیں وہ معافی طلب کیے بغیر افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے سپلائی لائن بحال نہیں کریں گے۔
اخبار کے مطابق امریکی انتظامیہ کے عہدیداروں نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ معاملہ جلد حل نہیں ہوسکے گا۔