امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ القاعدہ کو شکست دینے کا کوئی ایک واحد طریقہ نہیں ہے، لیکن اُس کے سرغنے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کےباعث یہ گروہ اب غیر فعال ہو کر رہ گیا ہے۔
اُن کے بقول، اِس گروہ کی روحانی اورنظریاتی قیادت کرنے والوں کو ہم جس قدر کامیابی سے زِچ کریں گے، اُسی حد تک امریکہ کو خطرے سے دوچار کرنے کی اُس کی صلاحیت کمزرو ہو جائے گی۔
پنیٹا نے جمعے کے روز اِس اعتماد کا اظہار کیا کہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکہ محفوظ ہوگیا ہے، جنھیں خفیہ ’سیل‘ آپریشن کےدوران گذشتہ سال دو مئی کو ایبٹ آباد کے پاکستانی فوجی چھاؤنی والے شہر کی اونچی دیواروں والے گھر میں گھس کر موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔
نیشنل انٹیلی جنس دفتر کے ڈائریکٹر، رابرٹ کارڈیلو نے جمعے کو اِسی طرح کے ایک بیان میں کہا کہ آئندہ سال کے دوران کیمیائی، حیاتیاتی، جوہری یا تابکاری ہتھیاروں کے کسی حملے کا امکان کم ہوگیا ہے۔
تاہم، انٹیلی جنس کے دیگرعہدے داروں نے جمعے کے دِن نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب کہ دہشت گرد گروپ کے دیگر دھڑے اب بھی خطرے کا باعث ہیں، القاعدہ کا اصل نیٹ ورک شاید اِس قابل نہیں رہا کہ 11ستمبر 2001ء کی سطح کا ہلاکت خیز حملہ کر سکے۔
حکام نے القاعدہ کےیمنی دھڑے کوخصوصی طور پر خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی یمنی اور امریکی فورسز کی طرف سے ہدف بنائےجانے کےباوجود، یہ دھڑا وسیع تر علاقے پر قابض ہو رہا ہے اور اُس کے پیرو کاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
گمنام عہدے داروں نےنام نہاد lone wolvesکی طرح کے دہشت گردی کےخطرات کا حوالہ دیا، جو القاعدہ کی تعلیمات سے متاثر ہیں اور تشدد کی کارروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اسلامی شدت پسندوں کی طرف سے گذشتہ ماہ فرانس میں کی جانے والی شوٹنگ کی طرز کےحملوں کو روکنا بہت مشکل معاملہ ہے۔
اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے جمعے کے روز کہا کہ پاکستان کی انٹیلی جنس سروس سمجھتی ہے کہ بن لادن کے خفیہ ٹھکانے کے بارے میں معلومات دینے پر امریکہ کو اُس کا معترف ہونا چاہیئے۔
اخبار نے خبردی ہے کہ گمنام عہدےدار بتاتے ہیں کہ پاکستان انٹیلی جنس نے امریکہ کو اطلاع دی جس کے نتیجے میں امریکہ بن لادن کی رہائش گاہ کو تلاش کر سکا۔ امریکی انتظامیہ نے اُن کے اِس دعوے کو چیلنج کیا ہے۔