ا مریکی افواج کے سربراہ اور افغانستان میں نیٹو فورسز کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پٹریس نے کہا ہے کہ آنے والے مہینوں میں افغانستان میں امریکی فوجی کارروائیوں کا مرکز زیادہ تر مشرقی علاقے ہوں گے۔ صدر اوباما نے کچھ ہی عرصہ قبل یہ اعلان کیا تھا کہ امریکہ اس سال کے آخر سے افغانستان سے اپنی افواج کی مرحلہ وار واپسی شروع کردے گا۔ماہرین کا کہناہے کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لئے جہاں ایک طرف سیاسی تصفیے کی کوششیں جاری ہیں وہیں دوسری جانب امریکی فوج عسکریت پسندوں پر اپنا دباؤ بھی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی سرحد کے قریب امریکی فوجی آپریشنز سے پاکستان پرمثبت اثرات مرتب ہونگے۔
افغانستان میں امریکی فوج کے رخصت ہونے والے کمانڈر اور سی آئی اے کے اگلے ڈائریکٹر جنرل ڈیوڈ پٹرئیس نے افغانستان کے اپنے آخری دورے کے دوران قندھار میں امریکی فوجی دستوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی امریکی فوج کے لئے افغانستان میں بہت سا کام باقی ہے ۔ ایک حالیہ اخباری انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ آئندہ کچھ مہینوں میں مشرقی افغانستان اور پاکستان کے ساتھ سرحدی علاقے فوجی کارروائیوں کی توجہ کا مرکز ہونگے۔واشنگٹن کے تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز سے منسلک ڈینیئل مارکی کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کے لئے فائدہ مند ہوگا۔
http://www.youtube.com/embed/b-_na3Zc79c
ان کا کہناہے کہ پاکستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو ، تو بعض پاکستانیوں کو یہ فکر ہوتی ہے کہ شاید امریکہ پاکستان کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتا ہے۔ میرے خیال میں یہ تاثر درست نہیں ہے ۔ پچھلے کچھ برسوں میں افغا نستان کے جنوب میں فوج کی تعداد بڑھائی گئی تھی مگر اب توجہ مشرقی سرحد میں مرکوز ہوگی۔ اور وہاں پر موجود طالبان گروہوں کے خلاف بھر پور کارروائی کی جائے گی جس سے پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا۔ یہ پاکستان کے لئے ایک مثبت صورتحال ہوسکتی ہے۔
امریکی ماہرین متفق ہیں کہ افغانستان میں امریکی حکمت عملی اسی صور ت میں کامیاب ہوگی جب اس کے سیاسی پہلووں پر بھی توجہ دی جائے گی ۔ پچھلے ایک ڈیڑھ سال کے دوران امریکی انتظامیہ اور دانشور افغانستان میں ٕسیاسی مصالحت کو خاصی اہمیت دے رہے ہیں جس کا بنیادی مقصد طالبان کو مذاکرات کے ذریعے سیاسی عمل میں شامل کرنا ہے ۔ مگر امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ سے منسلک افغان امور کے تجزیہ کار احمد مجید یار کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے عمل میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا ہے کہ طالبان رہنما ملا عمر کابل میں حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ وہ افغان آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے ۔ ممکن ہے کہ طالبان کے کچھ عناصر اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیں اور حکومت کے ساتھ مل جائیں ۔
امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں حالات اسی صورت میں سازگار ہوں گے جب افغان فوج اور پولیس اپنے ملک کی سلامتی کی زیادہ سے زیادہ ذمہ داریاں اپنے ہاتھ میں لے گی لیکن ایسا کرنے کے لئے افغان حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے بھی ضروری ہیں ۔