'امریکہ خطے کا دوست بن کر افغانستان سے نکلے،' پاکستان کی خواہش

فائل: سیکورٹی فورسز کابل میں ایک خود کش دھماکے کی جگہ کا معائنہ کر رہی ہیں۔ 29 نومبر 2018

فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے راولپنڈی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک طویل عرصے سے افغانستان کے سیاسی حل کے لیے آواز اٹھا رہا ہے اور امریکہ کا شروع کیا ہوا امن عمل تیز ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستانی فوج نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے کامیاب سیاسی حل تک پہنچنے میں امریکہ کی مدد کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ تاکہ امریکہ ناکام ہو کر نہیں بلکہ خطے کا دوست بن کر جنگ زدہ افغانستان سے نکلے۔

یہ بیان امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے دورہ اسلام آباد کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے جہاں انہوں نے پاکستانی رہنماوں سے ملاقات میں طالبان کے ساتھ 17 سال سے جاری جنگ کے پر امن خاتمے کے لیے امریکہ کی کوششوں کے لیے تعاون مانگا۔

فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے راولپنڈی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک طویل عرصے سے افغانستان کے سیاسی حل کے لیے آواز اٹھا رہا ہے اور امریکہ کا شروع کیا ہوا امن عمل تیز ہوتا جا رہا ہے۔

آصف غفور نے کہا کہ سیاسی حل کامیاب ہونا چاہیے، ہماری خواہش ہے کہ امریکہ افغانستان سے خطے کا دوست بن کر نکلے نہ کہ ناکام ہو کر۔

ترجمان نے کہا کہ گزشتہ سالوں میں طالبان پر پاکستان کا اثرورسوخ کم ہوا ہے لیکن کہا کہ ہمارے جو بھی رابطے ہیں ہم افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کریں گے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کیسے انتہا پسندوں پر مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالے گا تو انہوں نے کہا کہ 40 سال سے افغان مہاجرین پاکستان میں رہ رہے ہیں اور ان میں طالبان کے عزیز رشتہ دار بھی شامل ہیں۔ ہم اتنا ہی کر سکتے ہیں اور کریں گے۔

خلیل زاد منگل کو اسلام آباد پہنچے تھے۔ امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق دو روزہ قیام میں انہوں نے پاکستان کی چوٹی کی سیاسی اور فوجی قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ایمبسڈر خلیل زاد نے زور دیا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان سیاسی حل کے لیے جاری امریکی کوششیں اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ افغانستان دوبارہ کبھی بین القوامی دہشت گردی کا پلیٹ فارم نہ بنے اور وہاں چار دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو۔

پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد نمائندہ خصوصی کابل گئے جہاں انہوں نے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزکیٹو عبدالله عبد الله سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے بعد خلیل زاد ماسکو چلے گئے جہاں وہ خطے کی طرف سے امن کی کوششوں کے لیے روسی حکام سے بات چیت کریں گے۔

نمائندہ خصوصی 18 روزہ دورے کے دوران دیگر کئی ملکوں میں جائیں گے بشمول قطر، جہاں وہ پہلے ہی دو بار طالبان کے نمائندوں سے مذاکرات کر چکے ہیں۔