امریکی ویب سائٹ "دی انٹرسیپٹ" پر امریکی اور پاکستانی سفارتکاروں کے درمیان گزشتہ سال ہونے والی گفتگو پر پاکستانی سفیر کے مبینہ 'سائفر 'کا متن شائع ہونے سے یہ بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ہٹانے کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے۔
واشنگٹن میں جنوبی ایشیائی امور پر تحقیق کرنے والے زیادہ تر ماہرین مبینہ سائفر کی اشاعت کو پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر جاری داخلی کشمکش اور امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پراس کے اثرات کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔
واشنگٹن کے تھنک ٹینک ووڈرو ولسن میں جنوبی ایشیا سینٹر کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مبینہ سائفر کے چھپنے سے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا یا نہیں، سائفر کے منظر عام پر آنے سے عمران خان کے سیاسی امکانات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
اس کے برعکس، ان کے خیال میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سائفر لیک کو عمران خان کے خلاف استعمال کر سکتی ہے جس سے ان کے لئے عدالتی انصاف کی کوششوں میں پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہیں۔
ان کے مطابق مبینہ سائفر کی اشاعت سے پاکستانیوں میں امریکہ کے متعلق تاثر خراب ہو سکتا ہے لیکن یہ امریکہ اور پاکستان کے موجودہ تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوگا۔
Your browser doesn’t support HTML5
واشنگٹن کے دی مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں پاکستان اور افغانستان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر مارون وائن بام کا کہنا ہے کہ اس مبینہ سائفر کا شائع ہونا دونوں ملکوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
مارون وائن بام نے کہا کہ پاکستان میں مبینہ سائفر کے انٹر سیپٹ نامی ویب سائٹ پر شائع ہو نے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ یوکرین کے معاملے پر عمران خان کے موقف سے خوش نہیں تھا اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ امریکہ انہیں اقتدار سے ہٹانا چاہتا تھا۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا تاثر یہ ہے کہ عمران خان جو بات کرتے تھے ان کے بیان کو کچھ تقویت تو ملتی ہے لیکن بنیادی نقطہ یہ ہے کہ پاکستانی کی عسکری قیادت عمران خان کی روس کی جانب اپنائی گئی پالیسی کی مخالف تھی۔
وائن بام نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے سمجھا کہ عمران خان ملکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بہت بڑھ کے اقدامات کر رہے تھے چنانچہ انہوں نے عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا ساتھ دیا۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اس وقت سنگین سیاسی صورت حال کا سامنا ہے جبکہ ان کے بہت سے پرانے ساتھی انہیں چھوڑ چکے ہیں اور انہیں مقدمات کا بھی سامنا ہے۔
SEE ALSO: امریکی ویب سائٹ کا مبینہ 'سائفر' کی تفصیلات منظرِعام پر لانے کا دعویٰ اور محکمہ خارجہ کا ردعملخیال رہے کہ پاکستانی فوج نے کسی بھی سیاسی معاملے میں مداخلت کی تردید کی ہےاور شعبہ تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے اس سلسلے میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے , جنہوں نے عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد تیرا جماعتوں کے اتحاد کی حکومت سنبھالی ، اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ان کے دور میں نیشنل سکیوریٹی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کے سفیر اسد مجید نے کہا تھا کہ ان کی امریکہ کے نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو کے ساتھ ملاقات میں عمران خان حکومت کے خلاف کسی سازش کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔
سائفر کے منظرعام پر آنے سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے ڈاکٹر وائن بام نے کہا کہ ابھی اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز امریکی نیوز ویب سائٹ 'دی انٹر سیپٹ' نے دعوی کیا تھا کہ اس نے مارچ 2022 کو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر اسد مجید اور ایک اعلی امریکی سفارتکار کے درمیان ہونے والی گفتگو کے متن کی کاپی پاکستانی فوج کےنامعلوم ذریعہ سے حاصل کی ہے۔
گزشتہ روز امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ وہ اس دستاویز کی صداقت کے بارے میں تصدیق یا تردید نہیں کر رہا ہےجبکہ شائع شدہ متن یہ ثابت نہیں کرتا کہ امریکہ کوئی ایسا موقف اختیار کر رہا ہے کہ پاکستان کا لیڈر کسے ہونا چاہئیے۔ محکمہ خارجہ کے ترجمان نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ نے عوامی سطح پر اور نجی طور پر عمران خان کے روس کے دورے کے متعلق پالیسیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔