امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری سے ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے اور پاکستان کے ساتھ امریکہ کی مفید شراکت داری کا اعادہ کیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کے جاری کردہ بیان کے مطابق، وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی کامیابی امریکہ کی اہم ترجیح ہے۔
بلنکن نے کہا کہ امریکہ تکنیکی اور ترقیاتی منصوبوں اور بھرپور تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان کے ساتھ روابط برقرار رکھے گا۔
انہوں نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے پاکستان کی مدد کے لیے پروگرام کی منظوری دینے کا بھی خیر مقدم کیا اور اقتصادی بحالی اور خوشحالی کے لیے مسلسل اصلاحات کی حوصلہ افزائی کی۔
امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن نے زور دے کر کہا کہ جمہوری اصول اور قانون کی حکمرانی کا احترام، امریکہ۔ پاکستان تعلقات کا مرکزی نکتہ ہیں اور یہ اقدار اس شراکت داری کے فروغ میں رہنمائی کرتی رہیں گی۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے توجہ دلائی کہ پاکستانی عوام نے دہشت گرد حملوں کے باعث شدید تکالیف کا سامنا کیا ہے۔ انہوں نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے پاکستان کے ساتھ مسلسل شراکت داری کے عزم کی توثیق کی۔
امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن اور پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو نے یوکرین کے خلاف روس کی جنگ سے پیدا ہونے والے عدم استحکام اور امریکہ اور پاکستان کے مشترکہ مفادات کے لئے ایک پر امن اور مستحکم افغانستان کی اہمیت پر بھی بات کی۔
سائفر سے امریکہ کا کوئی تعلق نہیں: میتھیو ملر
اس سے پہلےامریکی محکمہ خارجہ کےترجمان میتھیو ملر نے امریکہ کے اس موقف کا اعادہ کیا تھا کہ امریکہ پاکستان یا کسی بھی دوسرے ملک میں کسی ایک سیاسی جماعت یا امیدوار کے مقابل کسی اور جماعت یا امیدوار کی حمایت نہیں کرتا۔
پیر کے روز امریکی محکمہ خارجہ میں معمول کی بریفنگ میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملرسے سوال کیا گیا کہ پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے جو ایک ماہ تک زیرِ حراست بھی رہے ہیں، ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ سائفر ایک حقیقت ہے اور اس کی وجہ سے امریکی سفارتکار کو ڈیمارش کیا گیا۔ اور ایسا سابق وزیرِ اعظم اور سابق آرمی چیف کی موجودگی میں کیا گیا تو کیا اس کی ذمے داری صدر بائیڈن کی بنتی ہے کہ وہ پاکستان میں حکومت تبدیل کرنا چاہتے تھے یا وزیرِ خارجہ کی۔ کسی کو تو جواب دینا ہے۔
جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ یہ درست نہیں۔
انہوں نے کہا،" مجھے لگتا ہے مجھے کوئی سائن لانا چاہئیے جسے میں اس سوال کے جواب میں بلند کردوں۔"
ترجمان ملر نے کہا کہ وہ بارہا کہہ چکے ہیں اور ایک مرتبہ پھر کہیں گے کہ امریکہ کا پاکستان میں یا کسی بھی اور ملک میں کسی ایک سیاسی جماعت یا کسی سیاسی امیدوار کے مقابلے میں کسی اور جماعت یا امیدوار کے بارے میں کوئی موقف نہیں ہے۔
یادرہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اپنی حکومت کے خاتمےکے لئے امریکہ پر الزام لگایا تھا کہ اس نے حزب اختلاف کے ساتھ مل کر ان کی حکومت کو ہٹایا اور یہ کہ اس سلسلے میں امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر نے ایک سائفر میں اس کے متعلق ان کی حکومت کو بتایاتھا۔
امریکہ نے متعدد بار عمران خان کے سائفر کے حوالے سے لگائے گئے ان الزامات کو بے بنیا د قراردیا ہے جن کےمطابق امریکہ کے نائب وزیر خارجہ ڈونلڈ لو نے مبینہ طور پر واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کو بتایا تھا کہ عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی پارلیمانی تحریک کامیاب ہونے کی صورت میں پاکستان کے لیے بہتری ہوگی۔
گزشتہ دنوں سابق وزیر اعظم عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خا ن کا ایک بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان کا امریکی مداخلت کے بارے میں سائفر کا بیانیہ من گھڑت تھا۔
عمران خان اور ان کے ساتھی دعویٰ کرتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم کی حکومت کو روس کے ساتھ یوکرین میں جنگ کے آغاز میں تعلقات بڑھانے کی پاداش میں ہٹایا گیا۔
جب کہ امریکہ متعدد بار اس دعوے کی تردید کر چکا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ سائفر کے معاملے سے امریکہ کا کوئی تعلق نہیں۔