امریکہ میں حزب اختلاف کی رپبلیکن پارٹی کے متوقع صدارتی اُمیدوروں نے ایک مذاکرے میں پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی پر کڑی تنقید کی ہے۔
گزشتہ دس روز کے دوران امریکہ کی خارجہ پالیسی کے بارے ہونے والا اس نوعیت کا یہ دوسرا مباحثہ ہے جس میں انسداد دہشت گردی سے متعلق قوانین، پاکستان اور افغانستان سمیت دیگر اُمور پر تند وتیز خیالات کا تبادلہ کیا گیا۔
صدر براک اوباما کو اگلے صدارتی انتخاب میں چیلنچ کرنے والے ریپبلکن پارٹی کے آٹھ متوقع صدارتی امیدواروں نے واشنگٹن میں ہونے والے اس مذاکرے میں حصہ لیا جسے کیبل ٹی وی ’سی این این‘‘ نے براہ راست نشر کیا.
ریپبلکن پارٹی کے متوقع صدارتی اُمیدواروں نے پاکستان پر بظاہر یکساں نکتہ نظر کا اظہار کرتے ہوئے سوال اُٹھایا کہ کیا امریکہ اُس پر بھروسہ کرسکتا ہے۔
ان میں ریاست ٹیکساس کے گورنر رِک پیری بھی شامل تھے جنہوں نے پچھلے مباحثے کے مقابلے میں اس مرتبہ شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکی امداد کا اہل نہیں کیونکہ القاعدہ کے خلاف لڑائی میں اس کی کوششیں ناکافی رہی ہیں۔ ’’ایسے ممالک کو مالی امداد دینا بے معنی ہے جو امریکی مفادات کی واضح طور پر نمائندگی نہیں کررہے ہیں۔‘‘
لیکن ایک دوسرے متوقع صدارتی اُمیدوار مِچل باکمان، جو کانگریس کے ایوان نمائندگان کی انٹیلیجنس کمیٹی کی رکن ہیں، نے مسٹر پیری کو’’نہایت بھولا‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو جوہری ہتھیاروں سے مسلح ایک’’جارحانہ اور غیر مستحکم‘‘ پاکستان سے مزید اقدامات کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
اُنھوں نے پاکستان کے بارے میں مزید سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ایک ایسی قوم ہے جو جھوٹ بولتی ہے اور ہر ممکن وہ غلط کام کرتی ہے جس کا آپ تصور کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ وہ القاعدہ کے بارے میں خفیہ معلومات کا بھی ہم سے تبادلہ کرتے ہیں۔‘‘
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق صف اول کے اُمیدواراورایوان نمائندگان کے سابق سپیکر، نیویٹ گنگرچ، نے منجھی ہوئی کارکردگی کا مظاہر کیا اور امیگریشن پالیسی کی ازسرنو تشکیل کی حمایت کی۔
حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان ریپبلکن سے تعلق رکھنے والے متوقع صدارتی اُمیدواروں پر خارجہ پالیسی کے بارے میں کم علمی کا الزام لگا کران پر تنقید کررہے ہیں۔ چین کے لیے امریکہ کے سابق سفیر جان ہنٹسمین واحد صدارتی امیدوار ہیں جن کے پاس خارجہ پالیسی کے بارے میں گہرا تجربہ ہے۔
ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کے منصوبے سے باز رکھنے کے لیے پیری اور گنگرچ نے ایران کے مرکزی بینک پر پابندیوں کی حمایت کی۔
گنگرچ کا کہنا تھا کہ ’’میرے خیال میں قبل اس کے کہ وہ (ایران) جوہری ہتیھار حاصل کرلیں، جنگ کے بغیر(وہاں) نظام بدلنے کی کوششوں کی بجائے جنگ کر کے ایسا کرنے میں جیت ہوگی کیونکہ اس طرح جوہری ہتھیار بنانے کی ان کی کوشش کو بھی شکست ہوگی۔‘‘
سابق سینیٹر ریک سینٹورم کا کہنا تھا کہ امریکی ہوائی اڈوں پر مسلمانوں کے کوائف اور ان کی سخت تلاشی کی حمایت کریں گے کیونکہ ’’زیادہ امکان ہے کہ یہی لوگ جرائم کا ارتکاب کریں گے۔‘‘