رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: صدارتی انتخابات میں کون کامیاب ہوگا؟


امریکی اخبارات سے: صدارتی انتخابات میں کون کامیاب ہوگا؟
امریکی اخبارات سے: صدارتی انتخابات میں کون کامیاب ہوگا؟

اگلے سال کے امریکی صدارتی انتخابات میں کس کی کامیابی کے زیادہ امکانات ہیں۔ اس پر لاس اینجلیس ٹائمز کے معروف کالم نگار DOYLE MCMANUS کا کہنا ہے ، کہ اس کےلئے بُہت سارے فارمولے دستیاب ہیں۔ جن کی بنیاد پر پیشگوئی کی جا سکتی ہے۔ مضمون نگار کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں 9 فی صد بے روزگاری کی وجہ سے صدر اوباما کی مقبولیت بُہت نیچے چلی گئئ ہے۔ڈیموکریٹوں کے حوصلے پست ہیں۔ اور ری پبلیکنوں کے اندر ایک نیا ولولہ نظر آرہا ہے اور وہ مستعد دکھائی دے رہے ہیں۔ جب کہ دائیں اور بائیں بازو ، دونوں جانب سے تبدیلی کی اُمنگ واضح ہے۔

ایسے میں کیا ایسی کوئی راہ نکل سکتی ہے ۔ جس پر چل کر اگلے سال اوباما دوبارہ منتخب ہو سکیں۔ امریکی صدارتی انتخابات کے جوتشیوں کا کہنا ہے کہ یہ بات یقیناً ممکن ہے۔

معاشی ، سیاسی ، اور تواریخ کے ما ہرین نے انتخابی نتائج کی پیش گوئی کرنے کی ایک چھوٹی موٹی ایکیڈیمِک صنعت وضع کر لی ہے ۔ اور ان کے اپنے مختلف فارمولے ہیں ۔ جن کی بنیاد پر وُہ اپنے نتائج مرتّب کرتے ہیں ۔ مصنّنف کا کہنا ہے کہ انہوں نے جن پیش گوئیوں کا حال میں مطالعہ کیا ہے ۔ ان میں سے بُہت سُوں کے نزدیک اگلے سال کے انتخابات میں اوباما کا پلّہ بھاری رہے گا۔ چاہے ری پبلیکنوں کی طرف سے کوئی بھی امّید وار کھڑا ہو۔لیکن وُہ پیش گوئی کرنے والے اس کے ساتھ شرطیں بھی عاید کرتے ہیں۔ یعنی اگر معیشت واپس کساد بازاری کی طرف جاتی ہے یا کوئی غیر متوقّع ابتلا آ جا تی ہے ۔ لیکن ان میں سے بُہت سے اوباما کو کامیاب ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔

VANDERBILT یونیورسٹی کے پولیٹکل سائینسٹسٹ LARRY BARTELS کے ایک ماڈل کے مطابق اگر اقتصادی حالات انتخابات تک ٹھیک نہ بھی ہوئے۔پھر بھی اوباما کی کامیابی بُہت اغلب ہے۔1948 کے بعد کے انتخابات کے تجزئے پر مبنی انہوں نے ایک فارمولا وضع کیا ہے۔ جس کے مطابق اوبامہ کے امکانات کو دو باتوں کا فائدہ ہوگا۔ ایک تو یہ کہ امریکی ووٹرصدر کو وائٹ ہاؤس میں ایک ہی میعاد صدارت پوری کرنے کے بعد شاذ ہی عہدے سے فارغ کرتے ہیں ۔ایسا پچھلے 123 سال کے دوران صرف ایک دو بار ہوا ہے۔ جب 1980 میں جمی کارٹر کو شکست ہوئی تھی اور پہلے صدر بش کو صدر کلنٹن کا ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔دوسر ی بات یہ ہے کہ ووٹر جب اگلے سال معیشت پر نظر ڈالیں گے۔ تو وہ شاید اوباما کو کساد بازاری سے ملک کو نجات دلانے کا کریڈٹ دیں۔

اخبار یُو ایس اے ٹوڈے کے ایک مضمون میں امریکی آیئن میں اہم اصلاحا ت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے ، کہ ایک بات جس پر بیشتر ری پبلکنوں، ڈیموکریٹوں اور غیر جانبدار حلقوں میں اتّفاق رائے ہے۔ وُہ یہ ہے کہ اس ملک کا سیاسی نظام کام کرنے سے رہ گیا ہے، جس کا تازہ ترین ثبُوت حال ہی میں فراہم ہوا تھا ، جب ساری دُنیا نے یہ تماشہ دیکھا کہ امریکہ میں بلوں کی ادایئگی پر کتنا لڑائی جھگڑا ہوتا ہے ۔ ا ور واشنگٹن میں سیاسی لیڈروں نے جس سیاسی ناپختگی کا مظاہرہ کیا، اس کے نتیجے میں ملک کی کریڈٹ ریٹنگ کا درجہ نیچے آ گیا۔

مضموں نگار ALEX BEREZOWکا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے۔ جب ہمیں امریکی سیاست کے دو تباہ کُن خواص کو بدل دینا چاہئے ۔ ایک توPartisan Gridlock جانبدارانہ تعطّل اور دوسرے انتخابات کا ختم نہ ہونے والا چکّر۔ان دونوں کو ایک دوسرے سے تقویت ملتی ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔اس کے لئے آئینی ترامیم کی ضرورت ہوگی اور تمام 50 ریاستوں کو ان پر دستخط کرنے ہونگے ۔پُورے ملک میں پرائمری انتخاب کا ایک ہی د ن مقرّر ہونا چاہئے۔ تاکہ اُسی روز شہری اپنی اپنی پارٹی کا امّیدوار نامزد کر سکیں۔ مضموں نگار کے بقول انتخابی کالج

College Electoral کی افادیت ختم ہو گئی ہےاور اس نے اسے یکسر ختم کرنے کی وکالت کی ہے۔اور کہا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ صدر کو براہ راست ووٹ کے ذریعے مُنتخب کیا جائے۔ اس طرح صدارتی امّیدواروں کو محض درجن بھر ریاستوں میں نہیں بلکہ تمام 50 ریاستوں میں ووٹروں کی حمائت حاصل کرنے کی مہم چلانی پڑے گی۔ اور سنہ 2000 کے انتخابات کی مضحکہ خیز صورت حال دوبارہ پیدا نہیں ہوگی۔ اور ووٹوں کی اکثریت حاصل کئے بغیر کوئی شخص صدر منتخب نہ ہو سکے گا۔

XS
SM
MD
LG