امریکہ نے کہا ہے کہ ’پاناما لا فرم‘ کی جانب سے بڑی تعداد میں افشا کردہ اطلاعات کے بارے میں فوجداری تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے، جِن دستاویزات کے مطابق، دنیا بھر میں ٹیکس بچانے کے مبینہ حربے استعمال کیے گئے۔
نیویارک میں امریکہ کے معروف وکیل استغاثہ، پریت بھرارا نے یہ بات واشنگٹن میں قائم تحقیقاتی صحافیوں کے ایک گروپ کو بتائی، جنھوں نے اِس ماہ کے اوائل میں ’موساک فونسیکا لا فرم‘ کی جانب سے ’لیک‘ کی گئی ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد دستاویزات کے بارے میں خبریں جاری کی تھیں۔ اِن دستاویزات میں اس ’لا فرم‘ کی جانب سے سینکڑوں ’آف شور‘ کمپنیوں کی تشکیل کی تفصیل موجود ہے، جو دولت مند، طاقتور اور مشہور شخصیات کی ملکیت بتائی جاتی ہیں۔
بھرارا نے بتایا کہ خودساختہ ’پاناما پیپرز‘ کے حوالے سے، وہ ’انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس‘ نامی صحافیوں کے گروپ کے نمائندوں سے ملاقات کے خواہاں ہیں۔ صحافیوں کے گروپ نے اِس بات کی تصدیق کی کہ اُنھیں بھرارا کا مراسلہ موصول ہوگیا ہے، لیکن وہ اِس پر رائے زنی نہیں کر سکتے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ تفتیش کے دوران اُن کی اولین ترجیح امریکی افراد اور کارپوریشنوں کی جانب سے کی گئی مبینہ غلط کاری پر نظر ڈالنا ہوگی۔ اسی طرح سے، دیگر ملکوں میں بھی تحقیقات شروع کی جا چکی ہیں۔
جب اپریل کے اوائل میں آف شور اکاؤنٹس کے بارے میں خبریں سامنے آئیں، تو صدر براک اوباما نے ٹیکس بچانے کے عالمی حربے کو ’’سنگین مسئلہ‘‘ قرار دیا تھا۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’مسئلہ یہ ہے کہ بہت سارا مواد قانونی نوعیت کا ہے، نا کہ غیرقانونی‘‘۔
اوباما نے کہا کہ ’’اِن میں سےبہت سے نقائص کی زد متوسط خاندانوں پر پڑتی ہے، چونکہ غائب ہونے والی آمدن کا کہیں نہ کہیں سے مداوا ہوتا ہے۔ اور یہ کمی اُنھیں پوری کرنی پڑتی ہے‘‘۔