امریکہ کی سیاست میں ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز کے درمیان سب سے بڑا اختلاف اس معاملے پر ہے کہ وفاقی حکومت کا سائز اور اس کا رول کیا ہونا چاہیئے۔ وفاقی بجٹ پر دونوں پارٹیوں کے درمیان آج کل جو شدید بحث جاری ہے اس کی اصل وجہ یہی اختلاف ہے۔
امریکی کانگریس کے گذشتہ نومبر کے وسط مدتی انتخاب میں ریپبلیکنز نے کافی نشستیں جیت لیں اور ان میں سے بہت سوں نے اپنی فتح سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ امریکی چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کے سائز میں بھاری کمی کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب صدر براک اوباما نے 2012ء کے لیے تین اعشاریہ سات ٹریلین ڈالر کا بجٹ پیش کیا جس میں اخراجات میں کمی اور ٹیکس میں اضافے کی تجاویز شامل تھیں تو سینیٹ میں ریپبلیکن لیڈر مچ میکونل اور دوسرے ارکان نے اسے فوراً مسترد کر دیا۔ ’’نومبر میں جن لوگوں نے ایک نئی سمت اختیار کرنے کے لیے ووٹ دیا تھا ان کے پاس پانچ الفاظ پر مشتمل جواب ہے۔ ہمارے پاس پیسہ نہیں ہے‘‘۔
ریپبلیکنز اپنا الگ بجٹ تیار کر رہے ہیں جس میں بجٹ کے بڑھتے ہوئے خسارے کو روکنے کے لیے وفاقی اخراجات میں کہیں زیادہ کمی کی گئی ہے۔ وفاقی بجٹ میں کتنی کمی کی جائے یہ بحث واشنگٹن کی سیاست پر چھائی رہے گی اور 2012ء کے صدارتی انتخاب کی مہم میں بھی سب سے اہم موضوع ہوگی۔
دونوں پارٹیوں کے درمیان شدید اختلاف کے باوجود صدر اوباما نے کہا ہے کہ گذشتہ سال کے انتخابات کے بعد بھی بیشتر امریکی یہی چاہتے ہیں کہ دونوں پارٹیاں کوئی مشترکہ موقف اختیار کریں۔ ’’بنیادی بات یہ ہے کہ امریکہ کے لوگ چاہتے ہیں کہ تمام فریقین اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں اور کچھ لواور کچھ دو کی بنیاد پر سمجھوتہ کرنے پر تیار ہوں بجائے اس کے کہ ان کی دلچسپی محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں ہو‘‘۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ سال جب ٹیکسوں میں تخفیف میں توسیع دینے پر مسٹر اوباما نے ریپبلیکنز کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا تو ان کی سیاسی ساکھ بہتر ہو گئی۔
سیاسیات کے ماہر مارک مکیننو کہتے ہیں کہ تعاون کا یہ جذبہ جو مسٹر اوباما کی صدارت کے پہلے دو برسوں میں مفقود تھا اس سال بھی جاری رہ سکتا ہے۔
عام امریکی اور سیاست دان مِل جُل کر ان مسائل کے حل معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کچھ نو منتخب ریپبلیکنز بجٹ کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ ان میں سے بہت سے ٹی پارٹی تحریک کے حامیوں کی مدد سے منتخب ہوئے ہیں۔
نو منتخب ریپبلیکن کانگریس مین بوبی سچلینگ کا تعلق ریاست الی نائے سے ہے۔ ٹی پارٹی کے کارکنوں نے انتخاب کے زمانے میں ان کی بڑی مدد کی تھی۔ سچلینگ نے این بی سی کے پروگرام میٹ دی پریس میں کہا کہ نو منتخب ریپبلیکنز اپنے حلقۂ انتخاب میں ووٹرز کو ناراض کرنا نہیں چاہیں گے جو چاہتے ہیں کہ وفاقی اخراجات میں بھاری کمی کی جائے۔ ’’وہ لوگ ہماری جوابدہی کریں گے۔ انھوں نے مجھ سے کہہ دیا تھا کہ ہم نے تمہیں جو کچھ کرنے کے لیے بھیجا ہے اگر تم نے اس کے خلاف کام کیا تو ہم تمہیں ہٹانے کے لیے بھی اتنی ہی محنت کریں گے‘‘۔
سیاسی تجزیہ کار چارلی کک کہتے ہیں کہ کانگریس مین سچلینگ اور ٹی پارٹی کی مدد سے منتخب ہونے والے لوگ اپنے بنیادی خیالات پر سمجھوتہ نہیں کر سکیں گے۔ اگر انھوں نے ایسا کیا تو یہ ان لوگوں کے ساتھ غداری ہوگی جن کے ووٹوں سے وہ منتخب ہوئے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ بجٹ کی بحث سے دائیں اور بائیں بازو کے لوگوں کے درمیان اختلاف کی خلیج وسیع ہو جائے گی اور اس طرح صدر اوباما کے لیے گنجائش پیدا ہو جائے گی۔ رچرڈ ولیفے نے صدر اوباما پر دو کتابیں لکھی ہیں۔ ’’لیکن اس طرح صدر اوباما کو وہی مقام دوبارہ حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا جہاں وہ ایک امیدوار کی حیثیت سے 2008ء میں تھے یعنی یہ کہ میں اس قسم کے جھگڑوں سے بالا تر ہوں۔ یہ بچوں کی طرح لڑ رہے ہیں یہ بائیں اور دائیں بازو کے انتہا پسند ہیں اورمیں درمیانی راستہ اختیار کرنے والا معقول شخص ہوں‘‘۔
بجٹ پر اور وفاقی حکومت کے سائز پر بحث 2012 ء کے صدارتی انتخاب کے لیے ریپبلیکن امید وار کی نامزدگی میں بھی اہم موضوع ہوگی۔ سرکاری طور پر نامزدگی کی مہم اگلے سال کے اوائل میں شروع ہو جائے گی ۔ توقع ہے کہ اگلے چند مہینوں میں صدارت کے کئی ریپبلیکن امیدوار اپنے منصوبوں کا اعلان کر دیں گے ۔
امریکی کانگریس کے گذشتہ نومبر کے وسط مدتی انتخاب میں ریپبلیکنز نے کافی نشستیں جیت لیں اور ان میں سے بہت سوں نے اپنی فتح سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ امریکی چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کے سائز میں بھاری کمی کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب صدر براک اوباما نے 2012ء کے لیے تین اعشاریہ سات ٹریلین ڈالر کا بجٹ پیش کیا جس میں اخراجات میں کمی اور ٹیکس میں اضافے کی تجاویز شامل تھیں.