پرانی روایات کا ذکر کرتے ہوئے، سابق امریکی صدور بِل کلنٹن اور جارج ڈبلیو بش نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ موجودہ صدارتی مہم کے دوران مکالمے کا مہذب انداز برقرار رکھا جائے گا۔ دونوں نے جمعرات کے روز ٹیکساس کی جنوبی ریاست میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کیا۔
حالانکہ دونوں کا تعلق شدید منقسم امریکی سیاسی انداز فکر سے ہے، لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد، مسٹر بش اور مسٹر کلنٹن اچھے دوست بن گئے ہیں۔
موجودہ صدارتی انتخابی مہم ماضی کی مخاصمانہ بش۔کلنٹن دور کی یاد دلاتا ہے۔ اس بار، جارج بش کے بھائی اور فلوریڈا کے سابق گورنر جیب بش اور بِل کلنٹن کی بیوی اور سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن میدان میں ہیں۔
ڈیلاس میں صدارتی قائدین کے اسکالرشپ پروگرام کی گریجوئیشن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، مسٹر بش اور مسٹر کلنٹن نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ صدارتی انتخابی مہم اہم مسائل پر مرکوز رہے گی، ناکہ ذاتیات پر حملوں کے، جو امریکی صدارتی مہموں کا خاصہ بنتے جا رہے ہے۔
اڑسٹھ برس کے مسٹر بش نے کہا کہ،’میں جیب کو جانتا ہوں۔ اور میں پُرامید ہوں کہ سکریٹری ہیلری گفتگو کے انداز کا خیال رکھیں گی‘۔ ساتھ ہی، اُنھوں نے اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ اپنے بھائی کی انتخابی مہم میں شریک نہیں ہوں گے۔ اُن کے بقول، ’میں اُن کا متبادل نہیں بنوں گا‘۔ اُنھوں نے یہ بات 40 منٹ کے سوال و جواب کی نشست کے دوران کہی۔
اڑسٹھ سالہ کلنٹن، جو اپنی بیوی کے لیے عوامی انتخابی مہم میں شریک ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں، کہا ہے کہ اُن کے خیال میں، ایک سرگرم انتخابی مہم چلے گی۔ تاہم، اُنھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ مباحثے کے دوران امیدواروں کا رویہ مثبت ہوگا۔۔۔‘
مسٹر کلنٹن نے شرکا کو بتایا کہ مجھے امید ہے کہ ہم امریکی عوام کو باور کرائیں گے کہ اُن کے پاس کیا ترجیحات موجود ہیں۔ وہ اتنے سادہ نہیں۔ لوگوں کو پتا ہے کہ اُنھیں کیا کرنا ہے۔ بس، مجھے یہی فکر لاحق ہے۔ ساتھ ہی، مجھے یہ بھی پتا ہے کہ کسے جتوانا ہے‘۔
خیال کیا جاتا ہے کہ میدان میں موجود امیدواروں میں گورنر بش اور سکریٹری کلنٹن اپنی سیاسی پارٹیوں کی نامزدگی حاصل کریں پائیں گے، جس سے دونوں خاندانوں کی امریکی سیاست میں رہنے کی مدتوں کی روایت برقرار رہے گی۔ ماسوائے سنہ 2008 کے ایک انتخاب کے، سنہ 1976 سے اب تک سبھی میں اِن دو خاندانوں کے افراد صدر بنتے رہے ہیں۔