2012 ء کے صدارتی انتخاب کے لیے ریپبلیکن امیدواروں کی کمی نہیں اور میدان ابھی کھلا ہے۔ فورڈہیم یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر کاسٹیس پیناگوپولاس کہتے ہیں کہ’’اب تک واضح طور پر کوئی ایک بڑا ریپبلیکن امید وار سامنے نہیں آیا ہے اور میر ے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کچھ دنوں سے ریپبلیکن پارٹی خود اپنا جائزہ لینے اور اپنی سمت متعین کرنے کے عمل میں مصروف رہی ہے‘‘۔
کئی امکانی ریپبلیکن امیدواروں نے ان ریاستوں کا پہلے ہی دورہ کر لیا ہے جو صدارتی نامزدگی کے شروع کے مرحلوں میں اہم ہوتی ہیں۔ ان میں آیوا، نیو ہیمشائر، ساؤتھ کیرولینا اور نیویڈا کی ریاستیں شامل ہیں۔ اب تک ریپبلیکن امید واروں کی کوئی کمی نہیں۔ لیکن ایوانِ نمائندگان کے ریپبلیکن اسپیکر جان بوہینر نے بھی این بی سی ٹیلیویژن کے پروگرام میٹ دی پریس میں تسلیم کیا کہ ابھی کوئی ایسا ریپبلیکن میدان میں نہیں ہے جسے دوسروں پر واضح سبقت حاصل ہو۔ ’’میں نے اب تک کوئی ایسا مقابلہ نہیں دیکھا جس میں ریپبلیکن نامزدگی کے لیے میدان اتنا کھلا ہو۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ یہ بات فطرت کے خلاف ہے کہ کوئی خلا موجود ہو اور وہ پُر نہ ہو‘‘۔
اس خلا کو پُر کرنے کو جو لوگ بے چین ہیں ان میں ریاست میسا چوسٹس کے سابق گورنرمٹ رومنی شامل ہیں۔ واشنگٹن میں قدامت پسند کارکنوں کے حالیہ اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے صدر اوباما کی خارجہ پالیسی کے انداز پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں امریکہ کے لیے کبھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کروں گا۔
2008 ء کے ریپبلیکن پرائمری انتخاب میں رومنی سینیٹر جان مکین سے ہار گئے تھے اور اب ایسا لگتا ہے کہ وہ بے چین ہیں کہ کہ اگلے سال وائٹ ہاؤس پہنچنے کے لیے دوبارہ کوشش کریں۔ لیکن رومنی کے ساتھ اور بہت سے لوگ ہوں گے۔ اگلے چند مہینوں میں جو لوگ اپنے ارادوں کا اعلان کر دیں گے ان میں ایوانِ نمائندگان کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگیرچ، ریاست منی سوٹا کے سابق گورنرٹم پیولینٹی ریاست ساؤتھ ڈکوٹا کے سینیٹر جان ٹیونے اور ریاست پینسلوینیا کے سابق سینیٹر ریک سینٹوریم شامل ہیں۔
ریاست الاسکا کی سابق گورنر سارہ پیلن کے بارے میں جو2008 ء میں نائب صدارت کی ریپبلیکن امید وار تھیں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ وہ قدامت پسند ریپبلیکنز میں بہت مقبول ہیں لیکن ڈیموکریٹس اور غیر جانبدار ووٹروں میں ان کی مقبولیت زیادہ نہیں۔ یہ چیز اسٹریٹجی بنانے والے بعض ریپبلیکنز کے لیے پریشان کن ہے۔ وہ ایسا امید وار چاہتے ہیں جسے زیادہ سے زیادہ لوگ پسند کرتے ہوں۔
بعض دوسرے لوگ جو قسمت آزمائی کر سکتے ہیں ان میں ریاست مسی سپی کے موجودہ گورنر ہیلے باربیور ریاست انڈیانا کے گورنر مچ ڈینئیلز ریاست منی سوٹا کی خاتون رکن کانگریس مچلی بیکیہم اور ریاست Utah کے سابق گورنر جان ہینڈمین اور ریاست Arkansas کے سابق گورنر مائیک ہک کیبی شامل ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار رہوڈس ککس کہتے ہیں کہ ریپبلیکن امیدواروں کی صحیح تصویر ابھرنے اور کوئی واضح شکل اختیار کرنے میں وقت لگے گا۔ ’’ماضی میں کچھ ریپبلیکنز شروع ہی سے دوسرے امیدواروں سے بہت آگے تھے اور انھوں نے مقابلے کے خدو خال متعین کر دیے تھے۔ اس بار ایسا نہیں ہے ۔ صورت حال بہت الجھی ہوئی ہے اور اسے سلجھانا اتنا آسان نہیں ہوگا‘‘۔
گذشتہ سال کے بیشتر حصے میں، صدر اوباما کی پوزیشن کمزور معلوم دیتی تھی اور اسی وجہ سے گذشتہ نومبر کے انتخاب میں ریپبلیکنز نے امریکی کانگریس میں کافی نشستیں جیت لیں۔
لیکن اس کے بعد سے صدر اوباما کی مقبولیت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور فارڈہیم یونیورسٹی کے کاسٹاس
بیناگوپاؤلو جیسے ماہرین کی نظر میں اگلے سال کے انتخاب میں مسٹر اوباما زیادہ مضبوط امیدوار کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔ بعض حالیہ جائزوں کے مطابق کئی ریپبلیکن امید واروں کے مقابلے میں اس وقت مسٹر اوباما کی پوزیشن کافی مضبوط ہے۔
بیشتر امریکیوں کے لیے اگلے سال کے صدارتی انتخاب پر توجہ دینا ابھی قبل از وقت ہے ۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے ریپبلیکنز وائٹ ہاؤس پہنچنے کی کوشش میں اگلے چند ہفتوں کے دوران باقاعدہ اقدامات کریں گے۔