اِن دِنوں، امریکہ بھر میں ’وال اسٹریٹ پر قبضہ کر لو‘ نامی تحریک جاری ہے، جِس کے حامی دولتمندوں کے خلاف اپنی برہمی کے اظہار اوراپنے مطالبات پر توجہ دلانے کے لیے قانونی اور اخلاقی ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے دکھائی دیتے ہیں ، جِن میں پولیس کے ساتھ محاذ آرائی ، کاروں پر حملے ، پلوں یا سڑکوں کو بلاک کرنا، سرکاری امور کی انجام دہی میں رکاوٹیں ڈالنا اور املاک کی توڑ پھوڑ شامل ہیں ۔
نیو یارک کا Zuccotti پارک اِن مظاہروں کا مرکز رہا ہے۔ تاہم، اب اِن سےیہ پارک خالی کرا لیا گیا ہے، جِس کے بعد اب شہر بھر میں وہ کسی ایک جگہ پر واضح اور مستقل طور پر تو دکھائی نہیں دیتے ، لیکن اب اُن کی کارروائیوں کا دائرہ شہر بھر میں پھیل گیا ہے ۔
اخبار ’نیو یارک پوسٹ‘ نے اِس موضوع پر اپنے ایک اداریے میں لکھا ہے کہ تحریک کے ’ڈرونز‘ کی ہراساں کرنے والی سر گرمیاں اب معمول بن گئی ہیں ۔ اور نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ جمعے کےروز انہوں نے ایک مقبول ٹی وی شو کے لئے بنائے گئے زکوٹی پارک سےمشابہ ایک سیٹ کو بھی اس جواز کے ساتھ اپنا ہدف بنایا کہ اس کےذریعے ٹی وی اُن کی تحریک کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کررہا تھا۔ اِسی طرح، اخبار لکھتا ہے کہ اِس تحریک کے اراکین محکمہٴ تعلیم کے امور میں بھی مسلسل رخنہ اندازی کر رہے ہیں اور اسکولوں کی بہتری کے لیے سرکاری امور کی انجام دہی کرنے والے عہدے داروں کو ہراساں کر رہے ہیں ۔
اخبار لکھتا ہے کہ شہر کی انتظامیہ کو چاہیئے کہ اب وہ ہراساں کرنے والے لڑکوں کے اِن ’ فلائنگ اسکواڈز‘ سے خوف زدہ ہونے کی بجائے، اُن پر ہر ممکن طریقے سے قابو پائے، کیوں کہ معاملہ پہلے ہی اپنی حد سے کافی آگے جا چکا ہے ۔
اور، معاملہ تو’ عرب اسپرنگ‘ نامی اُس تحریک کا بھی بہت آگے تک بڑھ چکا ہے جو دنیائے عرب پرچھا چکی ہے اور جسےایک مثبت تبدیلی کی تحریک قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کی کامیابی کی ایک مثال مصر میں انقلابی اور جمہوری تبدیلی کا وہ عمل ہے جو انتخابات اور اُس کے بعد وہاں اسلام پسند جماعتوں،اخوان المسلمون اورسلفیوں کی ایک ایسی جیت تک پہنچ چکا ہے، جس نے مصری باشندوں کو خوش لیکن مغرب کو خوف زدہ کر دیا ہے ۔
لیکن، کیااِن جماعتوں کے سامنے آنے پرمغرب کو خوفزدہ ہونا چاہیئے؟ یہ تھا وہ سوال جِس کا جواب لینے کے لیے اخبار’ نیو یارک ٹائمز‘ کے ایک مضمون نگار نے مصر کے شہر اسماعیلیہ کا دورہ کیا، جہاں اخوان المسلمون کی بنیا د رکھی گئی تھی اور وہاں کے لوگوں سے بات چیت کی ۔
مصر میں اِن جماعتوں کی کامیابی کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئےمضمون نگار لکھتا ہے کہ اخوان المسلمون کی کامیابی کی پہلی وجہ یہ ہے کہ اِس کے دفاتر سماجی خدمات کے ادارے بن چکے ہیں ۔
مضمون نگار لکھتا ہے کہ اسماعیلیہ میں جن مصریوں سے اُن کی ملاقات ہوئی، واضح کیا کہ انہوں نے اسلامی جماعتوں کو اِس لیے ووٹ دیے ہیں کہ وہ روایتی اقدار کےعلمبردار ہیں۔ اور وہ توقع رکھتے ہیں کہ اُن کے اراکین رشوت، بدعنوانی اور دوسری اخلاقی برائیوں سے پاک ہوں گے اور لوگوں کے مسائل فی الواقع حل کریں گے، جب کہ اخوان المسلمون کے امیدواریہ یقین دہانیاں کرا رہے ہیں کہ ریاست لوگوں کویہ ڈکٹیٹ نہیں کرائے گی کہ اُنہیں کس طرح زندگی بسر کرنی چاہیئے۔
تاہم، مضمون نگار لکھتا ہے کہ مصر میں اسلام پسندوں کی کامیابی سے مغرب کوزیادہ خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ مصری فوج ابھی تک سیکولرموقف کی حامل ہے اور اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ پارلیمنٹ میں مذہبی جماعتوں کی اکثریت کو توازن میں رکھنے کے لیے امر موسیٰ جیسا کوئی زیادہ سیکولر شخص صدر بن جائے ۔
اور مضمون نگار لکھتا ہے کہ مصر میں اسلام پسندوں کی کامیابی سے مغرب کو اس لیے بھی زیادہ خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں کہ جمہوریت بہر طور آگے کی طرف ایک قدم ہے اور وہ مصر کی ایک اٹھارہ سالہ طالبہ کی اس بات پر اپنا مضمون سمیٹتا ہے کہ وہ کبھی بھی اخوان االمسلمون یا سلفی امیدوار کو ووٹ نہیں دے گی، لیکن جمہوریت یہی ہے کہ ہم اس کا احترام کریں جسے دوسرے لوگوں نے منتخب کیا ہے چاہے انہوں نےغلط فیصلہ ہی کیوں نہ کیا ہو۔ اور کوئی بھی فیصلہ غلط ہو یا صحیح، اٹھارہ سال کی عمرمیں کیا جائے یا نوے سال کی عمر میں اگر اس فیصلے پر عمل در آمد کا جذبہ توانا ہو تو اپنے فیصلے کو انجام تک پہنچانا مشکل نہیں رہتا۔
اخبار ’لاس ویگاس سن ‘نے اِسی موضوع پر اپنے ایک اداریے میں لاس ویگاس کی ایک اٹھارہ سالہ لڑکیIvon Padilla-Rodriguez اور نوے سالہ Michael Zone کے عزم کو خراج پیش کیا ہے جنہوں نے اپنی تعلیم کے حصول کے لیے کیے گئے اپنے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کےلیے بے انتہا حوصلے اور ہمت سے کام لیا ۔
نوےسالہ Michael Zone جس نے سترہ سال کی عمر میں دوسری جنگ عظیم میں لڑنے کےلیے ہائی اسکول چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد وہ کبھی اسکول واپس نہ جا سکا تھا ، لیکن جس نے دو سال پہلےجب ہائی اسکول کی گریجوایشن کی خواہش کی تکمیل کا فیصلہ کیا اور ہمت اور محنت کی تو نوے سال کی عمر میں ہائی اسکول ڈپلوما حاصل کرنےمیں کامیاب ہو گیا۔
جب کہ، اٹھارہ سالہ Ivon Padilla-Rodriguez نے اپنے انتہائی خراب مالی حالات کے مقابلے کے لیے ایک قومی ٹی وی شو میں حصہ لینے کے لیے بالز کو ہدف میں ڈالنے کے ایسے کام میں مہارت حاصل کی جس سے وہ بالکل ناواقف تھی ۔اس نے صرف تیس سیکنڈ میں تیرہ بالز اپنے ہدف میں ڈال کر وہ مقابلہ جیتا اور اپنی تعلیم کے اخراجات کے لیے رقم حاصل کی۔ اخبار ان دونوں طالبعلموں کو خراج پیش کرتے ہوئے، لکھتا ہے کہ اِن دونوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اگردل سےکوئی فیصلہ کر لیا جائے اور اس پر عمل درآمد کی ٹھان لی جائے تو پھر اُس فیصلے کو انجام تک پہنچانے کی راہ کی تمام رکاوٹیں خود بخود دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: