’ نیو یارک ٹائمز‘ کے صفحات پرافغانستان کے مستقبل پر کئی ماہرین کی آراٴ چھپی ہیں، جن میں سنہ 2014 کے بعد کے منظر نامے کا کُچھ نقشہ کھینچا گیا ہے۔
سینٹر فار نیو امیریکن سیکیورٹی کے ایک فیلو اینڈریُو ایکسم کا کہنا ہےکہ کُچھ امریکی فوجیں افغانستان میں سنہ 2014 کے بعد بھی موجود رہیں گی۔ ایکسم، جو عراق اور افغانستان، دونوں جنگوں میں شرکت کر چُکے ہیں کہتے ہیں کہ اگرچہ اوباما انتظامیہ اس ٹائم ٹیبل پر سختی کے ساتھ کاربند رہنے کی پابند ہے کہ سنہ 2014تک افغانستان میں لڑائی کی تمام ذمہ داریاں افغان فوج کو سونپ دی جائیں گی، اس کے باوجُود ایسی وجوہات ہیں جن کی بناٴ پریہ توقّع کی جا رہی ہے کہ امریکی فوج کی اچھی خاصی نفری کئی سال تک اُس ملک میں موجود رہے گی ۔
یہ نفری کتنی بڑی ہوگی اس پر امریکہ اور افغان حکومت کے درمیان گُفت و شنید جاری ہے، تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بین الاقوامی فوجیں افغانستان کو ایک حد تک استحکام فراہم کرتی ہیں، اور اگر وہ وہاں سے نکل آئیں تویہ نہ تو افغانستان کے حق میں اچھا ہوگا اور نا ہی اُس کے پڑوسیوں کے حق میں ۔اگرچہ کم از کم 2006ء سے افغان جنگ کے حالات خراب تھےلیکن پچھلے دو سال اس کے حق میں اچھے ثابت ہوئے ہیں، کیونکہ یہ وقت افغان سیکیورٹی افواج کی تعمیر کرنے کے لئے اچھا ثابت ہوا ہے ، اور اب مغربی فوجیں نکلنے کی تیاری کر سکتی ہیں۔لیکن ، ان کے جانے کے بعد لڑائی ختم نہیں ہوگی اور امریکہ اور دوسرے ملک افغان فوجوں کی اُسی طرح تربیت جاری رکھیں گے اور انہیں ہتھیار فراہم کرتے رہیں گے اور امریکی فوج کم تعداد میں ہوتے ہوئے بھی القاعدہ کو تباہ کرنے اور اُسے شکست دینے کی صدر اوباما کی پالیسی پر کاربند رہے گی ۔
اس کے ساتھ ساتھ، ا مریکہ کی سپیشل اوپریشن کرنے والی افواج بھی، ایک طرف افغان باغی تنظیموں کی قیادت کو تباہ کر نے کی مہم جاری رکھے گی اور دوسری طرف افغان فوج کی تربیت اور امداد جاری رکھے گی ۔ لہٰذا، لڑائی ختم نہیں ہو رہی، بلکہ ایک دوسرے مرحلے میں داخل ہوگی جس میں اُنہیں اپنے طور سے طالبان کے خلاف لڑنےکے بجائے ، افغان اتحادیوں کے شانہ بہ شانہ لڑنے کی امید ہے۔کوری شاکے ہُور انسٹی ٹیوشن میں ریسرچ فیلو ہیں اور محکمہٴ دفاع ، قومی سیکیورٹی کونسل اور محکمہٴ خارجہ کام کر چُکی ہیں ، اُن کا کہنا ہے کہ کئی ہفتوں سے افغان جنگ سے متعلق حوصلہ شکن باتیں سننے میں آئی ہیں۔
لیکن حالات سے یہ بھی واضح ہے کہ اگرہم اُسے مستحکم بنائے بغیر افغانستان سے ہٹ گئے، تو اُس صورت میں سنہ 2000 والے حالات واپس آ جا یئں گے۔لہٰذا2014 ءتک امریکہ کی موجودگی انتہائی اہم ہے۔ اگر ہم افغانستان نئی سیاسی قیادت دینا چاہتے ہیں توسنہ2014 کے انتخابات میں با صلاحیت گورنر اور دوسرےلیڈر حصہ لیں گے۔ لیکن اُس سے پہلےہمیں انتخابی ضوابط وضع کرنے میں اور بد عنوان سیاست دانوں پر مقدّمہ چلانے میں افغانوں کی مدد کرنی چاہئیے۔
ہارورڈ ینیورسٹی کے بین ا لاقوامی امُور کے پروفیسر سٹیفن والٹ کا کہنا ہے کہ امریکہ اب تک گیارہ سالہ افغان جنگ پر پانچ کھرب ڈالر لُٹا چکا ہے۔اُس کے تقریباً دو ہزار جوان شہید اور 15 ہزار زخمی ہو چکے ہیں ، لیکن ابھی تک وہاں نہ تو موثّر ادارے بن پائے ہیں نہ کرپشن سے چھٹکارا حاصل کیا جا چاپکا ہے۔جب کہ افغان فوج میں باغی گُھسے ہوئے ہیں ۔ پروفیسر والٹ کہتے ہیں امریکہ کو اپنے فوجی صرف اُسی صورت میں خطرے میں جھونکنے چاہئیں، جب اُس کے اہم مفادات داؤ پرلگے ہوئے ہوں ۔ افغانستان میں جو بھی نتیجہ برآمد ہوگااُس سے امریکی سیکیورٹی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اور پروفیسروالٹ کے خیال میں مزید جانیں اور مزید دولت لُٹانے سے کُچھ حاصل نہ ہوگا۔
ایک اور ماہر کرس میسن بھی کم و بیش اسی خیال کے حامی ہیں وُہ نیوی میں خدمات سر انجام دے چُکے ہیں اور 2005ء میں افغانستان کے پکتیکا صوبے میں ڈیوٹی دے چُکے ہیں۔ اور اس وقت واشنگٹن کے ’سینٹر فار ایڈوانسڈ ڈیفینس سٹڈیز‘ کے سینئر فیلو ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ افغانستان کے حالات بالکل ویت نام کے دور سے مُشابہ ہیں۔ اور ان کا کہنا ہے کہ حامد کرزئی کو افغانستان کی قیادت پر مسلّط کرنا حماقت تھی۔اور انہوں نے یاد دلایا ہے کہ لوئے جرگہ کے 75 فی صد ارکا ن کی درخواست تھی کہ سابق بادشاہ ظاہر شاہ کو ملک کاعبوری سربراہ مقرر کیا جائے۔ لیکن اس وقت رسمی بادشاہت کو ختم کرنے کے حق میں فیصلہ کیا گیا۔ حالانکہ ایسا کیا گیا ہوتا تواس سے قومی یگانگت کی ایک علامت بحال ہو جاتی ۔ جیسے جاپان میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر کیا گیا تھا اور جاپان کے شہنشاہ کا عہدہ برقرار رکھا گیا تھا۔