اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ افغانستان میں سرگرم کردار ادا کرنے کے لیے بھارت کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے جس کا مقصد پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہے۔
اخبار نے یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں شائع کی ہے جب امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا بھارت کے دو روزہ دورے پر نئی دہلی پہنچے ہیں جہاں وہ وزیرِاعظم من موہن سنگھ، وزیرِ دفاع اے کے اینتھونی اور قومی سلامتی کے مشیر شیو شنکر مینن سے مذاکرات کریں گے۔
'وال اسٹریٹ جرنل' کے مطابق پنیٹا کے ساتھ بھارت کا سفر کرنے والے محکمہ دفاع کے اہلکاروں نے اخبار نویسوں کو بتایا ہے کہ امریکی وزیرِ دفاع اور بھارتی حکام کے مابین ملاقاتوں میں دیگر معاملات کے علاوہ اس بارے میں بھی تبادلہ ِخیال ہوگا کہ بھارت کس طرح افغانستان میں ایک سرگرم کردار ادا کرسکتا ہے۔
اخبار کے مطابق امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت افغانستان کے سیاسی اور اقتصادی معاملات میں ایک متحرک کردار ادا کرےاور 2014ء میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغان نیشنل آرمی اور پولیس کو تربیت فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی سنبھالے۔
یاد رہے کہ بھارتی اور افغان حکام کے درمیان اس ضمن میں ایک معاہدہ گزشتہ برس طے پاچکا ہے جس کے تحت افغان فوجیوں کو بھارت میں تربیت دی جائے گی۔
'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے بھارت کی اس حوصلہ افزائی کا ایک مقصد پاکستان کو پریشان کرنا بھی ہوسکتا ہے تاکہ پاکستانی حکومت کو دباؤمیں لا کر اسے مفاہمت پہ مبنی رویہ اپنانے پر مجبور کیا جاسکے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اسلام آباد ماضی میں بھارت کی جانب سے افغانستان کے ساتھ قریبی تعلقات کے قیام کی کوششوں کی سخت مزاحمت کرتا آیا ہے۔ اخبار کے مطابق پاکستانی حکام بھارت اور افغانستان کے قریبی تعلقات کو اپنے لیے خطرہ گردانتے ہیں کیوں کہ ان کے خیال اس طرح پاکستان وسطی ایشیا میں 'اسٹریٹجک ڈیپتھ' سے محروم ہوجائے گا۔
'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ گزشتہ برس نومبر میں سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی افواج کے حملے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں در آنے والی کشیدگی اور پاکستان کی جانب سے نیٹو سپلائی معطل کرنے کے باعث واشنگٹن کے حکومتی حلقوں میں پاکستان کی حمایت میں کمی آرہی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ کے سینیئر دفاعی اہلکاروں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ افغانستان میں سرگرم کردار ادا کرنے کے لیے بھارت کی حوصلہ افزائی امریکی حکمتِ عملی میں تبدیلی کا ایک اشارہ ہے لیکن ابھی یہ تبدیلی ابتدائی مرحلے میں ہے۔
اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے اپنے ایک اداریے میں مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف ہونے والی عدالتی کاروائی اور فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ صدر مبارک کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی اور بدعنوانی کے الزامات بادی النظر میں درست معلوم ہوتے ہیں ، لیکن ان کے خلاف جس انداز میں مقدمہ چلا اور جو فیصلہ سنایا گیا، اس سے مصری معاشرے کی مزید تقسیم کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
ایک مصری عدالت نے کئی ماہ کی سماعت کے بعد اتوار کواپنے فیصلے میں سابق صدر اور ان کے وزیرِ داخلہ کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ دونوں رہنماؤں پر یہ الزام ثابت ہوگیا ہے کہ وہ حکومت مخالف تحریک کے دوران ہلا ک ہونے والے مظاہرین کے قتل کو روکنے میں ناکام رہے تھے۔
لیکن حیرت انگیز طور پر عدالت نے ان چھ پولیس افسران کو بری کردیا تھا جو بظاہر گزشتہ برس ہونے والی ان ہلاکتوں کے زیادہ ذمہ دار تھے۔ عدالتی فیصلے کے بعد مصر کے قانونی حلقے یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران عدالت سابق صدر کی عمر قید کالعدم قرار دیدے گی۔
'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ صدر مبارک کے خلاف مقدمہ سنجیدہ عدالتی کاروائی کے بجائے ایک تماشاتھا جس کے پیچھے مصر کے موجودہ فوجی حکمران ہیں جنہوں نے پہلے مبارک کو حکومت سے علیحدہ کیا تھا لیکن اب اقتدار پر خود اپنی گرفت مضبوط بنانے میں مصروف ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ حسنی مبارک کے خلاف مقدمے کا مقصد مصری عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنا تھا جو سابق حکومت کے عہدے داروں کے کڑے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق ماضی میں صدر مبارک کو سلیوٹ کرنے والے موجودہ حکمران فوجی جنرل اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں خود انہیں بھی اپنے ماضی کے کرتوتوں کا حساب نہ دینا پڑ جائے۔ اخبار کے مطابق اسی خوف کے زیرِاثر مصر کے فوجی حکمرانوں نے سابق صدر کے خلاف مقدمے کی کاروائی کو ہر طرح سے نقصان پہنچایا۔
'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ گزشتہ برس مصر کی سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں سابق صدر مبارک کے خلاف مقدمے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین درحقیقت فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں استعمال ہوئے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اگر مظاہرین یہ بات سمجھ لیتے کہ صرف ایک جمہوری حکومت اور غیر سیاسی اور آزاد عدلیہ ہی ان کا مطالبہ پورا کرسکتی ہے تو آج نتیجہ مختلف ہوتا۔
لیکن، اخبار کے مطابق، ایسا نہ ہونے کے باوجود بھی سابق صدر کے خلاف مقدمے کو ڈھنگ سے چلایا جانا چاہیے تھا تاکہ ملک میں سیاسی مفاہمت کی راہ ہموار ہوتی۔
'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ صدر مبارک عراق کے سابق صدر صدام حسین جیسے انجام کا شکار ہونے سے تو بچ گئے ہیں جنہیں ایک ایسے ہی غیر شفاف مقدمے کے نتیجے میں پھانسی چڑھا دیا گیا تھا، لیکن ان کی قانونی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔
اخوان المسلمون کے صدارتی امیدوار اعلان کرچکے ہیں کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں وہ سابق صدر کے خلاف دوبارہ مقدمہ چلائیں گے اور انہیں تمام عمر جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھیں گے۔'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ کئی عشروں تک مصر میں سیاسی جبر کی علامت رہنے والے سابق صدر حسنی مبارک گوکہ ایسے ہی سلوک کے مستحق ہیں لیکن اس نوعیت کی سیاسی مقدمہ بازی مصر میں قانون کی حکمرانی مشکل بنادے گی۔