پیر کے روز صدر براک اوباما اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے درمیان جو مذاکرات ہوئے تھے اس پر وال سٹریٹ جرنل کا کہنا ہے کہ ایران کے مسئلے پر امریکہ اور اسرائیل ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں ۔
لیکن، امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اس خوشگوار ماحول کے باوجود دونوں فریقوں کےعہدہ داروں کا اعتراف ہے کہ اس پر ابھی شدید اختلافات موجود ہیں کہ ایران کی طرف سے خطرہ کتنا فوری ہے اورکس قسم کی جوابی کاروائی کی ضرورت ہے اور آنے والے مہینوں کے دوران یہ اختلافات دوطرفہ تعلقات پر چھائے رہیں گے ۔
اخبار نے امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ مسٹر اوباما اپنی اُس وسیع تر پالیسی سے آگے نہیں جانا چاہتے ۔جس کے تحت امریکہ اس بات کاپابند ہےکہ ایران کو سفارت کاری اور تعزیرات کے ذریعے جوہری طاقت بننے سے روکا جائےاور طاقت کا استعمال صرف آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جائے۔
اُدھر اسرائیلی لیڈر امریکہ کو یہ بتانے کے لئے تیا ر نہیں کہ اسرائیل کب اور کہاں حملہ کرے گا۔ مسٹر اوباما کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے سے قبل مسٹر نیتن یاہو نے زور دے کر یہ بات کہی تھی کہ اسرائیل کی سیکیورٹی کے مفاد میں کیا بات ہے اس کا حتمی فیصلہ کرنے کا مجاذ صرف اسرائیل ہے۔
عہدہ داروں کے بقول مسٹر اوباما رازدار ی میں اپنے اس یقین کا بالاصرار ذکر کرتے ہیں کہ ایران کے ساتھ سفارت کاری کا اب بھی وقت ہےاور یہ کہ اس کے خلاف تعزیرات کا اثرموسم گرما میں اس کے یورپ کی طرف سے ایران کے تیل پر پابندی سےشروع ہوگا ۔
امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ مسٹر اوباما یہ بات مسٹر نیتن یاہو کے گوش گزار کرنے میں کامیاب ہوئے کہ وہ اس مسئلے میں سنجیدہ ہیں اور یہ کہ وہ طاقت کے استعمال کے لئے بھی تیا ر ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ آیا مسٹر نیتن یاہو نےکوئی وعدہ کیا یا نہیں۔ ایک اسرائیلی عہدہ دار نےکہا ہےکہ دونوں لیڈروں کی یہ ملاقات بہت ہی گرم جوشانہ تھی۔اور اس نے مسٹرا وباما کے اس واضح بیان کی تعریف کی کہ وہ ایران کوجوہری ہتھیار نہیں بنانے دیا جائے گا۔
وال سٹریٹ جرنل نے ایران کے اس اقدام کو مصالحت کی کوشش سے تعبیر کیا ہے۔جس کے تحت ایرانی عدالت عالیہ نے امریکی بحریہ کے سابق مرین، امیر مرزائی حکمتی کی سزائے موت کو ردّ کرکے اس پر دوبارہ مقدّمہ چلانے کا حکم دیاہے۔ حکمتی پر امریکہ کے لیئے جاسوسی کر نے کا الزام ہے
واشنگٹن پوسٹ کہتا ہے کہ مسٹر نیتن یاہو کو یہ امید تھی کہ صدر اوباما شاید پبلک میں ان شرایط کی وضاحت کریں گےجن کے تحت وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے پر تیار ہونگے۔ اس وجہ سے انہیں پیرکے مذاکرات غالباً مایوسی ہوئی ہوگی۔ کیونکہ اگرچہ انہوں نے ایرانی جوہری بم سے امریکہ کی قومی سلامتی کو لاحق خطرے پر تفصیلی بات کی ، وہ اپنے اس پُرانے موقّف سے سرِ مُو آگے نہیں گئے ، کہ انہوں نےتمام راستے کُھلے رکھے ہُوئے ہیں۔
ایران پر جلد حملہ کرنے کے خلاف صدار اوباما کی دلائل سے اتّفاق کرتے ہوئے اخبار کہتا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ چونکہ مسٹر نیتن یاہو اسرائیل کی طرف سے یک طرفہ کاروائی کرنے کے حق کو منوا چکے ہیں ۔ اس لئے اُن کی حکومت ایسا کوئی قدم نہ اُٹھائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے امریکہ اور اس کے اتّحادیوں کو یہ جانچنے کا موقع ملے گا کہ مذاکرات کے اگلے دور میں ایران کیا مراعات دینے کے لئے تیا ر ہوگا۔ یہ مذاکرت موسم بہا ر میں متوقّع ہیں․
نُیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ تہران نے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کی پیش کش کی ہےوہ تقریباً یقینی طور پر ایک اور بہانہ ہے لیکن اس کو ضرور آزمانا چاہئے ۔ اور اگر تعزیرات اور سفارت کاری کارگر ثابت نہیں ہوتیں تو پھر جیسا کہ مسٹر اوباما کہتے آئے ہیں تمام راستے کُھلے ہیں۔
اخبار کہتاہے کہ امریکہ کی فوج میں اسرائیلی فوج کے مقابلے میں ایرانی جوہری تنصیبات کو سنگین نقصان پہنچانے کی کہیں زیادہ صلاحیت ہے۔ اور مسٹر اوباما یہ بات بالکل درست ہے کہ فوجی کاروائی آخری حربے کے طور پر کرنی چاہئے اور اسرائیل کو اس میں کوئی شُبہ نہیں ہونا چاہیئے ، اور نہ ہی ایران کو ہونا چاہئے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: