روزنامہ ’واشنگٹن پوسٹ‘ اپنے ایک اداریے Can we help Syria without making things worseمیں لکھتا ہے کہ شام میں تقریباً ایک برس سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور حکومت کی طرف سے سخت کارروائی کے نتیجےمیں ہزاروں ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ مظاہرین کے بھرپور مطالبوں کے باوجود، بشار الاسد بدستور اقتدار پر براجمان ہیں۔
عرب لیگ نے بشار الاسد کے با آسانی اقتدار سے الگ ہونے کے لیے مفاہمتی سمجھوتے کی کوشش کی، لیکن ناکام ہوئی۔ دنیا کے بیشتر ملکوں نے شام کے خلاف پابندیاں لاگو کردیں۔ لیکن، اقتصادی مسائل اتنے شدید نہیں ہوئے کہ اسد کے وفاداروں کو حکومت سے الگ ہونے کے لیے قائل کرسکیں۔ ہلاکتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ شام میں حزبِ مخالف نے مدد کی اپیل کی ۔
اِس سلسلے میں امریکہ کیا کرسکتا ہے؟ ابتدا میں شام کی حزبِ اختلاف امریکی امداد طلب کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی رہی، لیکن اب تشدد میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ بیرونی مدد مانگ رہی ہے اور بین الاقوامی سطح پر تحفظ فراہم کرنے کو کہہ رہی ہے۔ حزبِ اختلاف میں سے بعض افراد نے تو لیبیا کے انداز میں عالمی مداخلت کی اپیل بھی کی۔
جہاں تک امریکہ کا سوال ہے، حالیہ دخل اندازیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں آزادی اور اپنے مفادات کو فروغ دینے میں مدد کرتو سکتا ہے، لیکن اِس سے صورتِ حال مزید خراب بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ نتائج کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اِس تناظر میں محض انتظار کرتے رہنا، جبکہ اسد حکومت اپنے عوام کو ذبح کرتی رہے، درست نہیں ۔
شام لیبیا نہیں ہے۔ کم سے کم نیٹو وہاں بمباری کے آپریشن نہیں کرے گی۔روس اور چین نے اقوام متحدہ میں شام کے خلاف قرارداد کو ویٹو کرتے ہوئے اپنے مؤقف کو واضح کر دیا ہے۔ امریکہ اور یورپ مشرقِ وسطیٰ میں اقوام متحدہ کی حمایت کے بغیر کوئی مزید جنگ شروع کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اِس وقت شام کے خلاف عائد پابندیاں شام کی سیاست پر اثرانداز ہورہی ہیں، خاص طور پر سفری پابندیوں اور اثاثوں کو جامد کرنے کے نتیجے میں شام میں سیاحت اور توانائی کے شعبوں کو تباہ کُن نقصان پہنچا ہے۔ شام کی کرنسی کی گِرتی قدر بھی اسد حکومت پر بے پناہ دباؤ کا باعث ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ، پابندیوں کا یقینی نتیجہ نکلے گا، یہ کوئی حتمی بات نہیں۔ 1990ء کی دہائی میں عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خلاف اِسی نوعیت کی پابندیاں لاگو کی گئی تھیں۔ لیکن، صدام حسین نے صورتِ حال کو بچائے رکھا۔ لیکن، صدام حسین کے اقتدار ختم ہونے پر عراق کی معیشت کھوکھلی ہو چکی تھی اور جب امریکہ نے وہاں انتظام سنبھالہ تو معیشت کو از سرِ نو بحال کرنے کا آغاز ہوا اور اب بھی دس برس کے بعد عراق پورے طور پر بحال نہیں ہوسکا۔
روزنامہ ’نیویارک ٹائمز‘ Egypt’s Never Ending Revolutionکے عنوان سے اپنے ارادیے میں لکھتا ہے کہ مصر میں صورتِ حال کشیدہ ہے اور فوج سابق حکومت کا اقتدار ختم ہونے کے بعد سیاسی اور اقتصادی مسائل کے حل تلاش کرنے کے لیے سرگرداں ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیاں اور گروپ اپنے اندر اتفاقِ رائے نہ ہونے کے باوجود فوج کے مخالف ہیں۔ لیکن، اخوان المسلمین سب سے ہٹ کر فوج کے ساتھ سودے بازی کی کوشش میں ہے۔ پارلیمانی انتخاب اور نئے آئین کے وعدوں کے باوجود صورتِ حال بدستور غیر مستحکم ہے۔
اخبار صورتِ حال کا تقابل 1954ء کے اوائل میں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے کرتا ہے، جب گمال عبد الناصر اور اُن کے فوجی حلیف، جنھیں ’فِری آفیسرز‘ کہا جاتا تھا، مصر میں اپنی قوت مضبوط کی۔
مصر کی تاریخ مستقبل کے لیے کوئی فارمولہ نہیں اور ماضی کے تباہ کُن راستے سے بچنے کے لیے مصری عوام کو ایسے طریقے تلاش کرنا ہوں گے کہ فوج اپنی منشا عوام پر اُسی انداز میں مسلط نہ کرے جیسا کہ ناصر نے 50کے عشرے میں کیا تھا۔
مصر میں گذشتہ برس جنوری میں شروع ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں 11فروری کو حسنی مبارک مستعفی ہوئے اور یہ صورتِ حال مثالی اور غیر معمولی رہی۔
آج کے انقلابی اور سرگرم کارکن سماجی انصاف، قومی وقار اور نمائندہ حکومت کے مطالبات کرتے ہیں بالکل اُسی طرح جیسے چھ دہائیاں قبل فوجی اقتدار کے مخالفین نے کیے تھے۔
ماضی کے سیاسی لائحہ عمل کو سمجھنے سے آج کے سرگرم کارکنوں، پارٹی لیڈروں اور لکھنے والوں کو مدد ملے گی کہ وہ اپنے ملک کے لیے ایک نئی اور نمایاں طور پر سیاسی تاریخ رقم کریں، خاص طور پر یہ بات اہم ہے، کیونکہ آج بھی مصر کے موجودہ فوجی حکمراں وعدہ کررہے ہیں کہ وہ جمہوریت کے لیے ماحول تیار کر رہے ہیں، لیکن اُن کی سرگرمیاں اِس دعوے کی سچائی کی دلیل نہیں ہیں۔
’شکاگو سن ٹائمز‘ اپنے اداریےBefore next war, check out veterans’ art museum میں لکھتا ہے کہ ہماری قوم ایک بار پھر جنگ کی باتیں کر رہی ہے اور اِس مرتبہ ایران کے ساتھ، اگرچہ ہم عراق اور افغانستان کی جنگوں سے پریشان ہیں۔
پھر ہتھیاروں اور فوجیوں پر اٹھنے والے خطیر اخراجات گرما گرم سیاسی بحث کا موضوع ہیں، جب کہ نیوٹ گنگرچ جیسے ناقدین کے مطابق پینٹا گان کے بجٹ میں کٹوتی ہمارے تحفظ کو کم کر دے گی۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: