صدربراک اوباما نےاعلانیہ شام کے صدرحافظ الاسد کو اقتدار سےعلیحدہ ہونےکا جومشورہ دیا ہے اُس پر’ شکاگو سن ٹائمز‘ کہتا ہے کہ دنیا بھر سےعوامی شورش میں گِھرے ہوئے شامی لیڈر سے یہ مطالبہ ہو رہا ہے کہ اپنے عوام کو بیدردی سے کچلنے کی پاداش میں اُنھیں اقتدارسےعلیحدہ ہو جانا چاہیئے۔
امریکی اعلان سے پہلے جینوا میں اقوامِ متحدہ کے حقوقِ انسانی سے متعلق ایک وفد نے کہا تھا کہ شامی حکومت نے عوامی مظاہروں کو جس طرح کچلا ہے وہ شاید انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آئے گا اور اِسے جرائم کی بین الاقوامی عدالت میں پیش کیا جانا چاہیئے۔
اُدھر ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردغان نے بشار الاسد کا موازنہ لیبیا کے معمر قذافی سے کیا ہے کیونکہ اُنھوں نے پالیسی بدلنے کے مشوروں کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اُدھر ترکی بھی اُن ملکوں میں شامل ہوگیا ہے جِنھوں نے معمر قذافی کو اقتدار سے علیحدہ ہونے کا مشورہ دیا ہے۔
’لاس ایجلیس ٹائمز‘ کے ایک کالم میں امریکہ کو درپیش خسارے کے بحران اور دوہرے ہندسوں کی کساد بازاری پر بحث کے دوران قارئین کی توجہ اِس حقیقت کی طرف دلائی گئی ہے کہ تمام مشکلات کےباوجود امریکہ اب بھی حقیقت میں دنیا کا سب سے بہترین ملک ہے، اگرچہ اِس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اِس ملک کو سنگین مسائل درپیش نہیں جِن سے نمٹنا ضروری ہے۔ لیکن، اِس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی پسِ پشت نہیں ڈالنی چاہیئے کہ اِس ملک میں عوام کےلیے کیا کچھ نہیں کیا گیا۔
اخبار کہتا ہے کہ دنیا بھر میں لوگ اب بھی امریکہ نقل وطن کرنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ مثلاً دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کے برعکس امریکہ کی آبادی میں نُمو کی رفتار میں استحکام ہے۔ امریکہ نے دنیا بھرمیں70اتحاد قائم کر رکھے ہیں اور عالمی سطح پر جو اقتصادی رشتے قائم کیے جاتے ہیں اُن میں سے 70فی صد امریکی عالمی اتحاد کے نظام کے تحت منظم ہوتے ہیں۔
امریکہ کے پاس دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ تعلیمی نظام موجود ہے۔ اگرچہ اِس میں شک نہیں کہ اِس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن زیادہ ترقی یافتہ سطح پر امریکہ سب سےآگے ہے۔
حالیہ جائزوں سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ دنیا کی 100بہترین یونیورسٹیوں میں سے 50فی صد یونیورسٹیاں امریکہ میں ہیں۔
اور آخر میں ایسو سی آیٹڈ پریس کی رپورٹ جس کے مطابق پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ بدنام ِجہإں حقانی دہشت گرد نیٹ ورک کو مذاکرات کی میز پر لاسکتا ہے۔
یہی وہ نیٹ ورک ہے جو افغانستان میں امریکی قیادت میں نیٹو فوجی اتحاد کے لیے سب سے زیادہ ہلاکت خیز ذریعہ ثابت ہوا ہے۔
یہ نیٹ ورک طالبان اور القاعدہ سے وابستہ ہے اور افغانستان میں ہونے والے بڑے حملوں میں بیشتر کی ذمہ داری اِسی نیٹ ورک پر آتی ہے اور یہی وہ نیٹ ورک ہے جس نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سرگرم عسکریت پسند تنظیموں کو متحد کر رکھا ہے۔
رپورٹ میں ایک سرکردہ پاکستانی فوجی افسر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کو مذاکرات کی میز پر لاسکتا ہے۔
اس افسر نے اس شرط پر کہ اُس کا نام نہ ظاہر کیا جائے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے اس نیٹ ورک کے عمر رسیدہ لیڈر جلال الدین حقانی کے ساتھ مواصلاتی رابطہ قائم کررکھا ہے۔ لیکن اُس نے امریکہ اور افغانستان کے اِن الزامات کی تردید کی ہے کہ اسلام آباد اِس نیٹ ورک کو امداد اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی یہ پیش کش کہ وہ جلال الدین حقانی اور اُن کے بیٹے سراج الدین حقانی کو امن مذاکرات کی میز پر لائے گا اُن بڑھتی ہوئی کوششوں کے تناظر میں کی گئی ہے جِن کا مقصد 2014ء تک امریکی افواج کی واپسی سے پہلے طویل افغان جنگ کا مذاکرات کے ذریعے حل نکالنا ہے۔
لیکن اِس رپورٹ کے مطابق واشنگٹن چاہتا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے۔
ایک سینئر پاکستانی فوجی افسر کے حوالے سےیہ بھی بتایا گیا ہے کہ حقانی کی کمین گاہوں پر فوجی حملہ کیا گیا تو پھر پورے قبائلی علاقے میں جنگ شروع ہوجائے گی جوپاکستان نہیں جیت سکتا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: