اگلےمالی سال کے لیے صدر براک اوباما نے کانگریس کو تین اعشاریہ آٹھ ٹریلین ڈالر کا بجٹ بھیجا ہے، جِس میں نئے ٹیکس لگائے جائیں گے، ٹیکس لگانے کے قوائد بدلے جائیں گے اور قلیل میعاد کے لیے ایسے اخراجات اُٹھائے جائیں گے جِن کا مقصد روزگار کے مواقع بڑھانا اور متوسط طبقے کو امداد فراہم کرنا ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کے مطابق، کانگریس کے ریپبلیکن لیڈروں اور صدارتی امیدواروں نے اِس کو رد کرتے ہوئے ایک ایسی سیاسی دستاویز قرار دیا ہے، جِس میں قوم کے قرضےکے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔
’یو ایس اے ٹوڈے‘ کہتا ہے کہ بجٹ میں ایک طرف زیادہ آمدنی والے امریکیوں کےلیے ٹیکسوں میں اضافے کی تجویز ہے اور دوسری طرف اخراجات میں غیر معمولی کٹوتی کے لیے کہا گیا ہے، تاکہ پانچ سال کے اندر پہلی مرتبہ سالانہ خسارے کو ایک ٹریلین ڈالر سے بھی کم سطح پر لایا جائے۔اخبار کے خیال میں اِسی وجہ سے، اِس کے پاس ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ رائے عامہ کے جتنے بھی جائزے لیے گئے ہیں اُن میں عوام نے صدر اوباما کے اِس مؤقف کو سراہا ہے کہ پہلے معیشت کی تعمیرِ نو ہونی چاہیئے اور جب اساس مضبوط تر ہوجائے تو پھر خسارے سے نمٹا جائے۔
’سین فرانسسکو کرانیکل‘ میں صدر اوباما کے بجٹ پر ایک مضمون میں مریلہ کیلی کہتی ہیں کہ ایک طرف بیشتر وفاقی اداروں کو کفایت کا پابند کیا جا رہا ہے، دوسری طرف جوہری ہتھیاروں کی سرگرمیوں کے لیے پچھلے سال کے مقابلے میں 20فی صد زیادہ اور اگر اسے منظور کر لیا گیا تو امریکہ کی تاریخ میں جوہری ہتھیاروں کے لیے سب سے بڑا بجٹ ہوگا۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ اور افغانستان کی حکومتوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کردیے ہیں۔ اِس کا انکشاف خود افغان صدر حامد کرزئی نے اِس اخبار کے ساتھ انٹرویو میں کیا ہے، جو اِس دس سالہ جنگ کو ختم کرنے کی کوششوں میں ایک اہم پیش رفت ہے۔
مسٹر کرزئی باور کرتے ہیں کہ بیشتر طالبان کو یقینی طور پر ایک امن سمجھوتے میں دلچسپی ہے۔
امریکی عہدے داروں نے خبردار کیا ہے کہ پچھلے ماہ سے اِن سہ فریقی مذاکرات سے بہت زیادہ امیدیں نہ وابستہ کی جائیں، جِن کا مقصد مزید رابطوں کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔
اِن رابطوں کا آغاز ایک سال قبل ہوا تھا، جب امریکی اور جرمن سفارت کار طالبان لیڈر ملا عمر کے ایک معاون سے خفیہ طور پر ملے تھے۔
افغانستان کی لڑائی میں ٹھیکیداروں کے کردار پر ’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، کئی روایتی اسامیوں مثلاً باورچیوں، فوجی اڈوں کے گارڈوں اور ڈرائیوروں کی اسامیوں کو ٹھیکے پر دینے کے علاوہ بہت سے امریکی جنرلوں اور سفارت کاروں نے اب پرائیویٹ ٹھیکیداروں سے کام لینا شروع کیا ہے۔
اِس سال جنوری کے مہینے میں افغانستان میں محکمہٴ دفاع کے ٹھیکیداروں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 13 ہزار سے زیادہ تھی۔ اِس کے مقابلے میں باقاعدہ امریکی فوجیوں کی تعداد 90,000تھی۔
سلامتی کونسل میں شام کی مذمت میں قرارداد کی نامنظوری پر اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ کہتا ہے کہ یہ عامة الناس کا قتلِ عام روکنے میں اِس ادارے کی تازہ ترین ناکامی ہے، جِس سے اِس ادارے کی فوری اصلاح کی اشد ضرورت اجاگر ہوتی ہے۔
اخبار کے خیال میں سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار رکھنے والے پانچ ارکان میں مزید پانچ ارکان کا اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اُس کے نزدیک، اِس کے موزوں امیدوار جرمنی، جاپان، ہندوستان، برازیل اور جنوبی افریقہ ہیں، اور اِس میں کسی قرارداد کو ویٹو کرنے کے لیے ایک نہیں کم از کم دو ارکان کی مدد لازمی ہونی چاہیئے۔
شکاگو کے سالانہ ’موٹر شو‘ کی مناسبت سے اخبار ’شکاگو ٹربیون‘ ایک اداریے میں لکھتا ہے کہ امریکی موٹر کار صنعت اقتصادی کساد بازاری کے دوران برے حالوں میں چلی گئی تھی، اب اچانک اُس کا سرفخر سے بلند ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس سال امریکہ میں ایک کروڑ 38لاکھ کاریں، چھوٹے ٹرک اور ’ایس یو وِی‘ گاڑیاں فروخت ہوں گی۔ سنہ 2009میں یہ تعداد صرف ایک کروڑ تھی۔ تین بڑی کمپنیاں جنرل موٹرز، کرائیسلر اور فورڈ اب منافعہ دے رہی ہیں۔ پچھلے سال جنرل موٹرز کو سات اعشاریہ چھ ارب ڈالر کا منافعہ ہوا۔
’ڈلس مارننگ نیوز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ اگرچہ امریکہ دنیا کا پولیس والا نہیں ہے، لیکن اِس ملک کے لیے لازمی ہے کہ وہ جارحیت کا مقالبہ کرنے اور اتحادیوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہو۔ مثلاً اگر بحیرہٴ عرب میں قزاق ایک سمندری جہاز کو ہائی جیک کرکے لے جائیں یا یمن کے کسی دور افتادہ علاقے میں القاعدہ کی کسی چوک کا سراغ مل جائے، امریکہ کی سپیشل اوپریشنز کمانڈ ایسی صورت میں فوجی کارروائی کرنے کے لیے پوری طرح لیس ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: