افغان فوجیوں کے ہاتھوں اتّحادی فوجی زیادہ تعداد میں ہلاک ہو رہے ہیں۔ یہ ہے’ نیو یارک ٹائمز‘کے پہلے صفحے کی ایک طویل رپورٹ کا عنوان، جِس کے مطابق امریکی اور دوسرے اتحادی فوجی جن افغان فوجیوں کو تربیت دیتے ہیں اور جن کے شانہ بہ شانہ لڑتے ہیں، وہ انہی کے ہاتھوں ہونے والے حملوں میں اب زیادہ تعداد میں ہلاک ہو رہے ہیں ۔
یہ حملے اُس گہری عداوت کا نتیجہ ہیں جو، اخبار کےمطابق، اُن دو مبیّنہ اتّحادیوں کےدرمیان پیدا ہو گئی ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ یہ معلومات ایک توامریکی اور افغان افسروں اور دوسرے ایک خفیہ رپورٹ سےحاصل کی گئی ہیں۔
اخبار کےبقول رپورٹ میں وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ افغانستان کی جنگ کو دس سال ہو گئے ہیں اور اب یہ ہلاکتیں اس جنگی کاوش کو لگنے والے سنگین عارضے کی واضح علامت بن گئی ہیں۔ یعنی وہ حقارت جو ہرفریق کو دوسرے سے ہے۔ یہ گہری بد گمانی اور عدم اعتماد دونوں اطراف کے سویلین اور فوجی ارکان کے درمیان موجود ہے جِس سے یہ سوال جنم لے رہے ہیں کہ مستقبل میں افغانستان کے اندر امریکہ اور اس کےاتّحادیوں کی جانب سے کس قسم کے کردار کی توقّع کی جا سکتی ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے امریکی اور اتّحادی فوجوں کو ایسی افغان فوج کے رحم و کرم پر چھوڑنے میں خطرہ ہےجس میں مغرب دُشمن جذبات ہیں اور جو2014ء میں نیٹو کا مشن ختم ہونے کے بعد طالبان اور دوسرے عسکریت پسندوں کےخلاف لڑنے کے اہل نہیں۔
رپورٹ کے مطابق افغان فوجیوں کے بارے میں امریکی فوجیوں کا تاثُّر منفی ہے۔ اور افغانون پر شبہ کیا جاتا ہے کہ اُن کا طالبان کےساتھ گٹھ جوڑ ہے۔ ایک امریکی فوجی کا کہنا تھاکہ لڑائی میں افغان سپاہی بے ہمّت نظر آتا ہے، جبکہ لڑائی کا بوجھ امریکی اٹھاتے ہیں ۔
اِسی خطرے کی مثال دیتے ہوئے، اخبار کہتا ہے کہ جمعے کےروزمشرقی افغانستان کے کپیسا صوبےمیں افغان فوجی وردی میں ملبوس ایک مسلح شخص نےچارفرانسیسی فوجی اورکئی دوسرے لوگوں کو ہلاک کر دیا۔
اخبار کہتاہےکہ نیٹو، افغان فوجیوں اور پولیس والوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے نیٹو فوجیوں کے پُورے کوائف فراہم نہیں کرتا ۔ لیکن، خفیہ رپورٹوں اور اتّحادی فوجیوں کےجاری کردہ بیانوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ2007ء کے بعد سے افغان فوجوں نے امریکی اور اتّحادی فوجوں پر جتنی بار حملے کئے ہیں اُن کی تعداد تین درجن سے زیاد بنتی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس قسم کا تشدّد اور اتّحادی کمانڈروں کی اِس سے نمٹنے میں ناکامی، اُن امریکی کوشششوں کی خامیوں کی نشان دہی کرتی ہے جوایک فعال افغا ن فوج تعمیر کرنے کے لئے ہو رہی ہیں اور اِن کوششوں سے وابستہ افسروں اور ماہرین کےحوالے سے اخبار کہتا ہے کہ اوباما انتظامیہ کی حکمت عملی کا یہ وُہ ستون ہے جِس کی مدد سے افغانستان کی جنگ سے گلو خلاصی حاصل کی جائے گی۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ جب سے مصر کی فوجی کونسل نے اقتدا ر سنبھالا ہے۔ اس نے بے شمار بے انصافیاں کی ہیں۔ اس نے بارہ ہزار شہریوں کو فوج کی سمر ی کورٹس میں پیش کیا ہے۔ جہاں آٹھ ہزار کو مجرم قرار دیا گیا ہے۔اس نے بلاگرز، اور لبرل سرگرم کارکنوں کو قید و بند میں ڈال دیا ہے۔ اور پولیس اور فوج کے اُن اہل کارو ں کی چشم پوشی کی ہے جنہوں نے احتجاجی مظاہرے کرنے والوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔اس نے اُن امریکی اور امریکی امداد سے چلنے والے غیر سرکاری اداروں پر چھاپے مارے جو حقوق انسانی اور جمہوریت کے فروغ کے لئے کام کر رہے تھے۔
اِس پر مستزاد معزول صدر حسنی مبارک پر چلائے جانے والا وہ مقدّمہ ہے جو ہر اعتبار سے ایک ڈھونگ ہے ۔ 83 سالہ سابق صدر کو فوجی اسپتال سے پلنگ پر ڈال کر عدالت میں لایا جاتا ہے۔ان پر مظاہرین کو ہلاک کرنے سے لے کرغبّن کے الزامات ہیں اور استغاثہ نے انہیں پھانسی کی سزا کا مطالبہ کیا ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے استغاثہ نے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔فقط مبارک کی مذمّت میں لچھے دار تقریریں کی ہیں ۔ اخبار نے قاہرہ کے مبصرین کے حوالے سے بتایا ہے۔ کہ مبارک پھانسی لگنے سے بچ جائیں گے۔ البتہ انہیں قید کی سزا ہوگی اور انہیں واپس اسپتال کے بستر پر بھیج دیاجائے گا۔ اس طرح فوجی کونسل کوامید ہےکہ وہ سویلین حکومت کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے خودکو مقدمے سے بچانے کے لئے راہ ہموارکرےگی، جو اخبار کی نظر میں بے انصافی ہوگی ۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: