مصر میں فوج اور احتجاجی مظاہرین کے مابین پانچ روز سے جاری جھڑپوں پر ’ نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ ان سے ظلم اور ستم کی بھیانک تصویر سامنے آتی ہے ۔ ایک وڈیو میں فوجی زمین پر گرائی گئی ایک خاتون کا عبایہ اتار رہے ہیں جب کہ ایک فوجی بُوٹ اس کو پوری طاقت سے ٹھوکر مارنے والا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ فروری میں فوج کاوقار بلند ہوا تھا جب اس نے صدر حسنی مبارک کے تنزّل کے وقت مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کر د یا تھا۔ لیکن اب وُہی فوج ملک کی جمہوریت کی جانب پیش قدمی میں رُکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ منگل کے دن ہزاروں عورتوں نے تحریر چوک میں خواتین کے ساتھ فوج کے رویے پر اور جاری فوجی راج کے خلاف مظاہرہ کیا ۔
اخبار کہتا ہے کہ فوج کے جنرل جن پر حکمران فوجی کونسل مشتمل ہے، یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ احتجاجی مظاہرین کو جان سے مار دینے اور ہزاروں افراد کو زنداں خانوں میں ڈالنے سے دریغ نہیں کریں گے اگر یہ ان کے اقتدار اور معیشت کےمنافع بخش حصّص پر اپنا قبضہء قدرت بر قرار رکھنے کے لئے ضروری ہوا۔
اخبارنے اوباما انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ اُن جنرلوں پر زور دے کہ سویلین راج کو بحال کرنے کے لئے فوری قدم اٹھائے
جا ئیں اور اگر انہوں نے مصری عوام پر اسی طرح تشدّد جاری رکھا تو اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ وہ اس قسم کے طرز عمل پر ناپسندیدگی اظہار کرتے ہوئے مصر کی 2 ارب ڈالر کی امداد میں کٹوتی کرے ، جس کا دو تہائی مصری فوج کے لئے وقف ہوتا ہے۔
امریکی ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی نامزدگی کے ایک اہم امّیدوار اور ایوان نمایندگاں کے ایک سابق سپیکر نُیوٹ گِنگرِچ سپریم کورٹ کے ججوں کے بار ے میں ایک متنازع بیان دینے کی وجہ سے ایک تلخ بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔
اخبار ’ یو ایس اے ٹوڈے‘ کے بقول گنگرچ کا موقّف یہ ہے کہ اگر وہ صدر منتخب ہوئے تو انہیں سپریم کورٹ کے کسی بھی ایسے فیصلے کو نظر انداز کرنے کا اختیار ہوگا جس سے انہیں اختلاف ہو۔وہ اس کی بھی حمایت کریں گے کہ پولیس یا مارشل ایسے ججوں کو پکڑ کر پوچھ گچھ کے لئے کانگریس میں لے کر آئے۔ علاوہ ازیں، جن عدالتوں کے فیصلے انہیں ناپسند ہوں وہ انہیں بر طرف کر نے کے لئے تیار ہونگے ۔
اس پر اخبار کہتا ہے کہ گنگرچ شاید اپنے آپ کو صدر نہیں بلکہ ایسا بادشاہ تصوّر کریں گے جس کےتحت نہ عدالتی خودمختاری ہوگی اور نہ قانون کی بالادستی اور دو سو سال پرانی وہ روایت خاک مل جائےگی جس کے تحت عدالت عالیہ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔
’یو ایس اے ٹوڈے‘ کہتا ہے کہ گنگرچ کے یہ تباہ کن نظریات کوئی اچانک بڑ نہیں قرار دی جا سکتی، بلکہ انہوں نے صدارتی مباحثوں اور انٹرویوز اور اپنے پالیسی منشور مین ان کی بالتفصیل وضاحت کی ہے۔
ایک مباحثے کے دوران جب انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے جواب میں دعویٰ کیا کہ ایک تاریخ دان کی حیثیت سے انہیں وکیلوں کے مقابلے میں ان باتوں کا بہتر ادراک ہے، بلکہ، ایک تازہ بیان میں وہ اس سے بھی آگے چلے گئےاور کہا کہ وہ اُن طبقہء اکابر والے ججوں سے عاجز آ چکے ہیں۔ جو، بقول ان کے، اپنے غیر امریکی نظریات زبردستی دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کہ ووٹروں کو ایسے سیاست دانو ں کی خوشامد چھوڑ دینی چاہئیے جو بظاہر آئین کی حمایت کا دم بھرتے ہیں۔ لیکن اصل میں اس کی جڑیں کاٹتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ در اصل گنگرچ خود امریکی جمہوریت کے ایک نہایت ہی اہم اصول کو ٹھکرا رہے ہیں۔اس ملک کے بانیوں نےایسی عدلیہ کی داغ بیل ڈالی تھی جو آئین کی آزادانہ وضاحت کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی نظام حکومت میں عدالتوں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دینے حتیٰ کہ خود آیئن میں ترمیم کرنے کے قواعد موجود ہیں۔