اخبار'لاس اینجلس ٹائمز‘ میں شائع ہونے والےایک مضمون میں ایران کےجوہری پروگرام پر تہران اور مغربی طاقتوں کے درمیان بغداد میں ہونے والے مذاکرات کو موضوع بنایا گیا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ بدھ کو شروع ہونے والے مذاکرات میں فریقین ایک عبوری معاہدے پرمتفق ہوسکتے ہیں جس کے تحت ممکنہ طور پر ایران کو اپنا جوہری پروگرام جاری رکھنے کی اجازت دیدی جائے گی۔
اخبار لکھتا ہے کہ مجوزہ معاہدے کی جو تفصیل سامنےآئی ہے اس کے تحت ایران یورینیم کو اْس سطح تک افزودہ نہیں کرے گا جسے ہتھیاروں میں استعمال کیا جاسکتا ہو اور اپنی یورینیم مزید افزودگی کے لیے بیرونِ ملک بھیجنے کا پابند ہوگا۔
مجوزہ معاہدے کے تحت ایران عالمی معائنہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت بھی دیدے گا۔ اس تعاون کےبدلے میں ایران کو کم سطح کی یورینیم افزودگی کی اجازت ہوگی جب کہ ایرانی بینکوں اور تیل کی بیرونِ ملک فروخت پر عائد امریکی اور یورپی پابندیاں نرم کردی جائیں گی۔
'لاس اینجلس ٹائمز' نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ یہ معاہدہ سراسر عارضی نوعیت کا ہے جس کے ذریعے ایران کے جوہری پروگرام پر موجود عالمی خدشات دور نہیں کیے جاسکتے۔
لیکن اخبار کے بقول مجوزہ معاہدہ اس لیے بہتر ہوسکتا ہے کیوں کہ اس کے ذریعے ایران کے جوہری طاقت بننے کو مزید چند برسوں کے لیے موخر کرنا ممکن ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ اس مہلت کا فائدہ اٹھا کر مغربی ممالک کو ایران کے جوہری تنازع کا کوئی مستقل حل تلاش کرنے کی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔
اخبار 'کرسچن سائنس مانیٹر' نے افغانستان میں امریکی سفیرریان سی کروکر کی رخصتی پر ایک مضمون شائع کیا ہے۔
کروکر نےاعلان کیا ہے کہ وہ اپنےعہدے کی مدت پوری ہونے سےایک سال قبل ہی رواں برس جولائی میں افغانستان میں امریکی سفیر کےعہدے سے دست بردار ہوجائیں گے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ان کی کی رخصتی امریکہ کو اپنی سفارتی حکمتِ عملی تبدیل کرنے کا ایک اچھا موقع فراہم کر رہی ہے جو، اخبار کے بقول، گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد سے قومی سلامتی کے ایک نکاتی ایجنڈے پر مرکوز ہے۔
'کرسچن سائنس مانیٹر' لکھتا ہے کہ نائن الیون کے بعد سے دنیا بھر میں موجود امریکی سفارت کاروں کی سرگرمیوں کا محور صرف تین مقاصد ہیں: ایک تو یہ کہ میزبان ملکوں کی صورتِ حال سے واشنگٹن کو آگاہ رکھنا، دوسرے مقامی رہنمائوں پر اثر انداز ہوکر ان سے ایسے فیصلے کرانا جو امریکہ کے حق میں ہوں، اور تیسرے بیرونِ ملک رہ کر امریکی مفادات کا تحفظ کرنا۔
اخبار لکھتا ہے کہ افغانستان کے معاملے پر امریکی خارجہ پالیسی کی باگ ڈور 'پینٹا گون' کے ہاتھ میں دینے کی حکمتِ عملی فرسودہ ثابت ہوچکی ہے اور اس نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مابین غلط فہمیوں اور افغان عوام میں مایوسی کو جنم دیا ہے۔
'کرسچن سائنس مانیٹر' لکھتا ہے کہ اب جب کہ امریکی خارجہ پالیسی ایک بار پھر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے سنبھال لی ہے، اْسے اِس حکمتِ عملی کو ترک کرنا ہوگا جس پر گزشتہ دس برسوں سے سیکیورٹی کا غیر ضروری غلبہ اور خوف طاری ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ ریان سی کروکر کے جانشین کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ خوف کی صورتِ حال سے نکل کر افغانستان کے بارے میں کم از کم اتنی معلومات ضرور حاصل کرے جو اسے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کے قابل بناسکے۔
اخبار'دی وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ بھارتی روپے کی قدر میں روز بروز کمی اس بات کا اظہار ہے کہ بھارتی معیشت دبائو برداشت کرنے کی صلاحیت کھورہی ہے۔
ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپیے کی قدر تاریخ کی کم ترین سطح پہ جاپہنچی ہے۔ اس پراخبار لکھتا ہے کہ بھارتی معیشت کی شرحِ نمو سات فی صد سے بھی کم ہوگئی ہے جب کہ صنعتی ترقی کا پہیہ عملاً رک چکا ہے۔ ایندھن کی بلند قیمتوں کے زیرِ اثر مالی خسارے میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جب کہ غیر ملکی سرمایہ کار بھارت سے اپنا سرمایہ منتقل کر رہے ہیں۔
'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ یہ صورتِ حال اس بات کا اظہار ہے کہ وزیرِاعظم من موہن سنگھ کی حکومت اب معاشی اصلاحات کے نفاذ میں مزید ٹال مٹول سے کام لینے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
اخبار لکھتا ہے کہ بھارتی حکومت معاشی پالیسی کو مستقل اورمستحکم بنیادوں پر استوار کیے بغیر اس بحران سے نہیں نکل سکتی اور اسے لامحالہ سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔