اخبار 'یو ایس اے ٹوڈے' نے اپنے ایک مضمون میں صدر براک اوباما کے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار کی خارجہ پالیسی کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ صدارتی انتخاب میں اب محض چار مہینے رہ گئے ہیں اور اس لیے ضروری ہے کہ امریکی ووٹرز کے سامنے صدراوباما کی خارجہ پالیسی کا درست اور حقیقی تجزیہ پیش کیا جائے۔
'یو ایس اے ٹوڈے' کے مضمون نگار کے بقول گزشتہ تین برسوں میں بڑی جنگیں اور جھڑپیں، دنیا کےمختلف خطوں میں قیامِ امن کی کوششیں، عرب اسپرنگ اور ابھرتی ہوئی طاقتوں کے ساتھ معاملات صدر اوباما کی خارجہ پالیسی کا محور رہے ہیں۔
بادی النظر میں صدر اوباما ایک قاتل نظر آتے ہیں جنہوں نے ایران سے لے کر پاکستان اور یمن تک امریکہ کے دشمنوں کے خلاف ڈرون طیاروں، میزائل حملوں، کمپیوٹر وائرسوں اور کمانڈو آپریشن سمیت ہر آپشن استعمال کیا ہے۔
لیکن اخبار کے مطابق صدر اوباما کا ایک دوسرا روپ صلح جو رہنما کا بھی ہے جس نے تاخیر سے ہی سہی مگر اپنے وعدے کے مطابق عراق جنگ کا خاتمہ کیا اور اب افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے لیے پرعزم ہے۔
'یو ایس اے ٹوڈے' لکھتا ہے کہ گو کہ صدر اوباما نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے سرگرم کردار ادا کیا لیکن کچھ ان کی اپنی غلطیوں اور کچھ حالات کی ستم ظریفی کے باعث ان کی یہ کوششیں بار آور ثابت نہ ہوسکیں۔
اسی طرح صدر اوباما کے دورمیں ایران، شمالی کوریا، کیوبا اور وینزویلا جیسے امریکہ کے حریف ممالک کے ساتھ بھی تعلقات میں نہ صرف یہ کہ کوئی پیش رفت نہ ہوسکی بلکہ الٹا امریکہ کو بعض اوقات ان ممالک کے ہاتھوں خفت اٹھانا پڑی۔
'یو ایس اے ٹوڈے' لکھتا ہے کہ گو کہ صدر اوباما نے ایشیا میں امریکہ کی فوجی موجودگی اور سفارتی تعلقات بڑھانے پر خصوصی توجہ مرکوز رکھی ہے، لیکن چین کے ساتھ ان کا رویہ بیشتر اوقات معذرت خواہانہ رہا۔
اخبار لکھتا ہے کہ عراق، افغانستان اور القاعدہ کے خلاف جاری جنگوں کےعلاوہ بھی صدر اوباما نے امریکی سفارت کاروں اور افواج کو مختلف چھوٹی موٹی محاذ آرائیوں میں الجھائے رکھا اور اس پہلو سے وہ کسی بھی دوسرے امریکی صدر کے مقابلے میں آگے نظر آتے ہیں۔
اخبارکے مطابق ان محاذ آرائیوں کے ملے جلے نتائج ظاہر ہوئے۔ لیبیا میں امریکہ اپنے مقصد میں کامیاب رہا، سوڈان کو پرامن انداز میں دو ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا اورصومالیہ میں شدت پسندوں اور قزاقوں کے خلاف کاروائیاں کی گئیں۔ لیکن امریکہ کی سرحد سے جڑے میکسیکو میں منشیات فروشوں کی پرتشدد کاروائیاں صدر اوباما کے دور میں زور پکڑ گئیں جب کہ کئی افریقی ممالک میں سیاسی عدم استحکام اور مسلح محاذ آرائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔
'یو ایس اے ٹوڈے' کے مطابق خارجہ امور میں صدر اوباما کا ایک اہم کارنامہ عرب دنیا کے مطلق العِنان حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاجی تحریکوں کی حمایت کرنا تھا۔ لیکن اخبار کے مضمون نگار کے بقول شام کی ابتر ہوتی صورتِ حال اور مصر میں اسلام پسندوں اور فوجی جنتا کے مابین سیاسی چپقلش صدارتی انتخاب سے قبل اوباما کے لیے دردِ سر بن سکتی ہے۔
'یو ایس اے ٹوڈے' لکھتا ہے کہ سابق صدر جان ایف کینیڈی کے بعد اوباما امریکہ کے وہ پہلے صدر ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی قوم بلکہ پوری دنیا کو بڑے بڑے خواب دکھائے اور لوگوں کو امید دلائی کہ ان کی قیادت میں یہ دنیا بدل سکتی ہے۔
صدر اوباما نے مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات دوبارہ استوار کرنے، دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے، ماحولیاتی تبدیلیوں کے مقابلے اور دنیا سے غربت کے خاتمے کے لیے عالمی تحریکیں برپا کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ لیکن، اخبار کے الفاظ میں، حالات کے جبر کے باعث اوباما ان میں سے کسی بھی وعدے کو پورا نہ کرسکے جس کے نتیجے میں لوگوں، خصوصاً مسلمانوں میں ان کے بارے میں منفی خیالات اور مایوسی نے جنم لیا۔
اخبار لکھتا ہے کہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو صدر اوباما نے امریکی قوم کے مفادات کا بہتر انداز میں تحفظ کیا ہے۔ افغان و عراق جنگ، انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں، چین کے مقابلے، عرب احتجاجی تحریکوں کے دوران اصلاح پسندوں کی حمایت، روس اور یورپی اتحادیوں کے ساتھ امریکی تعلقات کی از سرِ نو بحالی میں صدر اوباما کا کردار قابلِ تحسین رہا ہے۔
لیکن 'یو ایس اے ٹوڈے' لکھتا ہے کہ خارجہ امور میں ان تمام تر کامیابیوں کے باوجود تاریخ صدر اوباما کو کس طرح یاد رکھے گی، اس کا انحصار ان کی داخلی معاشی کارکردگی پر ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ایک مضبوط معیشت کے بغیر امریکہ کا زوال لازمی ہے اور اگر امریکی معیشت پھر سے اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوتی، تو خارجہ امور کے محاذ پر صدر اوباما کی یہ تمام تر کامیابیاں بآسانی نظر انداز کردی جائیں گی۔
اخبار'لاس اینجلس ٹائمز' نے امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے ان قوانین کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کو سراہا ہے جن کے تحت قتل کا ارتکاب کرنے والے کم عمر مجرموں کو پیرول پہ رہائی کی ممکنہ سہولت دیے بغیر عمر قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔
اپنے ایک اداریے میں اخبار نے لکھا ہے کہ اس نوعیت کے قوانین امریکہ کی 28 ریاستوں میں نافذ تھے جنہیں عدالت نے رواں ہفتے امریکی آئین کی آٹھویں ترمیم سے متصادم قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔
لیکن 'لاس اینجلس ٹائمز' نے اس امر پر افسوس ظاہر کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ذیلی عدالتوں کی جانب سے ان قوانین کے تحت ماضی میں سنائی جانے والی سزائوں کو کالعدم قرار نہیں دیا جس کے باعث امکان ہے کہ مستقبل کے مقدمات میں ان فیصلوں کو ایک نظیر بنایا جاسکتا ہے۔
'لاس اینجلس ٹائمز' لکھتا ہے کہ 18 برس سے کم عمر نوجوانوں نے چاہے کتنا ہی بڑا جرم کیوں نہ کیا ہو، یہ سراسر ایک ظالمانہ اور غیر معمولی سزا ہوگی کہ انہیں اپنے رویے میں تبدیلی اور اپنی اصلاح کرنے کے باوجود عمر بھر قید میں رکھا جائے۔
اخبار لکھتا ہے کہ نوجوانی لاابالی پن اور ناسمجھی کی عمر ہوتی ہے اور اگر اس عمر میں نوجوان کسی بڑے جرم کا ارتکاب کر بیٹھیں توانہیں اصلاح کا ایک موقع ضرور دینا چاہیے۔ اخبار کے الفاظ میں ایسے نوجوان اگر دورانِ قید اچھے رویے کا مظاہرہ اور اپنے ماضی پر شرمندگی کا اظہار کریں، تو انہیں پیرول پر رہائی کی سہولت ملنی چاہیے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: