واشنگٹن کی طرف سے غیر مشروط امداد کے دِن لد گئے: نیو یارک ٹائمز

فائل فوٹو

امریکی اخبارات سے:اخبار کہتا ہے کہ شاید سب سے زیادہ بڑی بات پاکستانی لیڈروں کا یہ واہمہ ہے کہ وہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ کرکے واشنگٹن پرشاید کوئی احسان کر رہے ہیں

’پاکستان سے حساب لیا جائے‘ کےعنوان سے’نیویارک ٹائمز‘ ایک اداریےمیں کہتا ہےکہ واشنگٹن کی طرف سےغیر مشروط امداد کے دِن لد گئے۔

اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کی ملٹری اکیڈمی کےقریب اسامہ بن لادن کی موجودگی کا پتہ لگنے کے بعد وہائٹ ہاؤس نے کارروائی کی اور پاکستان نے فوجی تربیت فراہم کرنے والے امریکیوں کو اپنے یہاں سے نکال دیا۔

اخبار کہتا ہے کہ اسلام آباد کو اِسے اِس سنگین انتباہ کی نظر سے دیکھنا چاہیئے کہ اِس دوہرے کھیل پر واشنگٹن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور اگر کام ایسے ہی چلتا رہا تو دونوں اطراف کو اِس کے لیے بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔

اخبار کہتا ہے کہ تمام فوجی امداد بند کرنا ایک سنگین غلطی ہوگی۔ اِسے پہلے آزمایا گیا ہے اور نتائج تباہ کُن نکلے تھے۔

1990ءکی دہائی میں پاکستان کے جوہری پروگرام پر برہمی اور مابعد سویت افغانستان سے بے فکر ہوکر واشنگٹن نے تمام امداد بند کردی تھی، پاکستان کی فوج اور عوام کو ابھی تک اُس پر غصہ ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ مکمل قطع تعلق سے اسلام آباد کی طرف سے وہ تعاون جاری رہنے کی امید پر پانی پھر جائے گا جو القاعدہ اور دوسرے عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے۔

اُدھر، پینٹگان کو بھی افغانستان میں اپنی فوجوں کے لیے پاکستان کے رسد کے راستے کی ضرورت ہے اور اگر طالبان کے ساتھ کسی سیاسی سودے کا کوئی امکان ہے تو اِس میں بھی پاکستان کو شامل کرنا ہوگا۔

جہاں تک توانائی، اسکولوں اور دوسرے منصوبوں کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ سویلین امداد کا تعلق ہے اُسے بند کرنا تو اور بھی زیادہ لایعنی بات ہوگی ۔ اِس امداد کو بہتر طور پر چلانے کی ضرورت ہے، لیکن امید یہ ہے کہ اِس سے زیادہ مستحکم اور کم شک کرنے والا پاکستان اُبھرے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ صدر اوباما نے پاکستان کو ایک وسیع رشتے کی پیش کش کی ہے، لیکن اِس موقع کا فائدہ اٹھانے کے بجائے پاکستانی لیڈروں نے عدم رواداری اور امریکہ دشمنی کو ہوا دی اور بھارت کی طرف سے خطرے کو بڑھا چڑھا کو پیش کیا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ شاید سب سے زیادہ بڑی بات اُن کا یہ واہمہ ہے کہ وہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ کرکے واشنگٹن پرشاید کوئی احسان کر رہے ہیں۔

اخبار کے خیال میں اِن لیڈروں کے ہاتھ سے پاکستان کے مستقبل کو بچانے کے لیے وقت ہاتھ سے نکلا جارہا ہے اور اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما کو پاکستان کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنا چاہیئے۔

’واشنگٹن ٹائمز‘ نے امریکی محکمہٴ خزانہ کی اُن تعزیرات پر تبصرہ کیا ہے جو کویت، قطر، پاکستان اور ایران میں سرگرم القاعدہ کے کارندوں کے خلاف عائد کی گئی ہیں۔ امریکی حکومت نے عزالدین عبدلعزیز خلیلی پر جو ایران میں القاعدہ کے گماشتہ ہیں، الزام لگایا ہے کہ وہ ایرانی حکومت کے ساتھ مل کر ایک نیٹ ورک چلا رہے ہیں جِس کی مدد سے القاعدہ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میٕں اپنا پیسہ اور کارندے بھیج رہا ہے۔

اِس میں عطیہ عبد الرحمٰن کا پاکستان میں القاعدہ کے ایک لیڈر کے طور پر ذکر ہے جو براہِ راست القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو رپورٹ بھیجتا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ ایران القاعدہ دہشت گردوں کے لیے ایک اہم گزر گاہ بن گیا ہے۔گیارہ ستمبر کے 19ہائی جیکروں میں سے آٹھ سے10تک امریکی بحریہ کے جہاز کول کی بمباری اور فروری سنہ2001 کی درمیانی مدت میں ایران سے ہوکر گئے تھے۔ 9/11کے حملوں کے بعد ایران نے القاعدہ کے بیسیوں کارندوں کو مکان میں محفوظ نظربندی فراہم کی تھی جِس سے اسامہ بن لادن کے بیٹوں نے بھی فائدہ اٹھایا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ ایران، عراق اور افغانستان میں باغیوں کو اعلیٰ قسم کا گولہ بارود فراہم کرتا ہے اور امریکی فوجوں کو ہلاک کرنے والوں کو انعام و اکرام دیتا ہے۔

اخبار ’ٹمپا بے ٹربیون‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ ابھی زیادہ دور کی بات نہیں جب ایسا لگ رہا تھا کہ سیل فون اب اپنی بہترین شکل میں آگیا ہے۔ یہ سائز میں چھوٹا تھا اور زیادہ طاقتور تھا اور اِس پرسے آپ کہیں سے بھی فون کرسکتے تھے اور اُس کی آواز گھر کی لینڈ لائین والے ٹیلیفون کی طرح بالکل صاف تھی۔ لیکن، اِس صنعت پر کوئی ضوابط نافذ نہیں تھے، جِس کی وجہ سے یہ پھیلتی چلی گئی۔

اب حال یہ ہےکہ آپ کو یہ پتہ نہیں چلتاکہ گاڑی میں بیٹھا ہوا شخص جیب سے ایک آلہ نکال کر فون کا کر رہا ہے، موسیقی ڈاؤن لوڈ کر رہا ہے، کسی کو فوٹو بھیج رہا ہے، یا ’جی پی ایس‘ کا نقشہ دیکھ رہا ہے یا انٹرنیٹ پر بھیجی ہوئی کوئی مووی movieدیکھ رہا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ یہ زبردست مسابقت کا کرشمہ ہے کہ اِس وقت امریکہ میں موبائل براڈ بینڈ کے سب سے زیادہ گاہک موجود ہیں۔

آڈیو رپورٹ سنیئے: